Seventy cover, a requirement of nature
Posted By: Zaheer Khan on 17-09-2021 | 06:51:08Category: Political Videos, Newsستر پوشی، فطرت کا تقاضا
لباس، اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو ستر پوشی کے لیے زیب تن کیا جاتا ہے۔ انسان اور حیوان کے درمیان یہ حد فاصل بھی ہے کیوں کہ اسے صرف انسان استعمال کرتے ہیں اور جانوروں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ارشاد باری تعالٰی کا مفہوم: ’’اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا۔ جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے، اور تقویٰ کا لباس اس سے بہتر ہے یہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔‘‘ (سورہ الاعراف)
اس آیۂ مبارکہ میں تین الفاظ غور طلب اور فکر انگیز ہیں جن میں لباس کی اقسام بتائی گئی ہیں۔ سوات کے معنی جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے۔ اس کے لیے متبادل لفظ ستر بھی استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا ریشا جس کے معنی وہ لباس ہے جو دنیا میں حسن و رعنائی کے لیے پہنا جائے۔
لباس اوّل ضرورت کے لیے پہنا جاتا ہے۔ جو ہر وقت پہنا جا سکتا ہے کسی قسم کی بندش نہیں ہوتی جب کہ دوم کی وجہ تسمیہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ اول کا تکملہ اور اضافہ ہے اور اسے کسی حد تک مخصوص بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسا لباس جو خوشی اور رنگا رنگ تقریب میں استعمال کیا جائے اور غم و الم کے مواقع پر اسے پہننے سے گریز کیا جائے۔ تیسرے نمبر پر لباس التقوی کا ذکر ہے۔ جس کے معنی بعض علماء و مفسرین کے نزدیک ایسا لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔
اس لفظ کا مفہوم کوئی مفسر ایمان اور کسی کے نزدیک عمل صالح اور خشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مگر مفاہیم کے اعتبار سے ان سب کا مطلب ایک ہی ہے کہ وہ لباس جسے پہن کر انسان تکبّر کرنے کے بہ جائے اﷲ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا بھرپور اہتمام کرے۔ اسی سے دوسرا مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لیے بھی لباس پہننا جائز ہے، تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کی زہد و ورع اور تقویٰ کی مظہر ہو۔
لباس انسان کی ستر پوشی اور زیب و زینت کا گویا ایک قسم کا سامان ہے، جو انسانیت کے آغاز سے ہی سترپوشی اور حیا کے فطری جذبے کو پورا کرنے کے لیے انسان اپنے عریاں جسم کو کسی نہ کسی طرح ڈھانپتا رہا ہے۔ دور قدیم میں جب کپڑے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو اس وقت بھی انسان اپنے جسم کو درختوں کی چھالوں اور پتوں سے ڈھانپتا رہا ہے۔
دنیا کے پہلے انسانی جوڑے نے بھی ایسا ہی لباس پہنا تھا جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی آیا ہے، مفہوم: ’’تو جب ان دونوں نے درخت کو چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے تو اپنے اوپر درخت کے پتے جوڑنے لگے۔‘‘ (سورہ الاعراف) یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے درخت کے پتوں سے ستر چھپانے سے قبل ان کا لباس کیا تھا ؟ اس کے جواب میں وہب بن منبہ لکھتے ہیں کہ اس سے قبل جنّت میں انہیں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا جو اگرچہ غیر مرئی تھا لیکن ایک دوسرے کے لیے ساتر یعنی پردہ پوش تھا۔ (تفسیر ابن کثیر) اس سے ظاہر ہوا کہ لباس کو ستر پوشی کی اولین ضرورت کے طور پر اﷲ تعالیٰ کی جانب سے نازل کیا گیا جو بعد میں انسانی فطرت قرار دیا گیا۔
انسان کے دنیا میں آنے کے بعد یہ فطرت کبھی بدلتی بھی رہی جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وحشی، جنگلی اور صحرائی قوموں نے ستر کو صرف شرم گاہوں تک محدود رکھا اور صرف ان حصوں کو ڈھانپ لیا۔ اس کا ثبوت ہمیں متعدد تاریخی اور مذہبی کتب سے ملتا ہے کہ طلوع اسلام سے قبل عرب کا یہ حال تھا کہ وہ حج جیسی مقدس عبادت میں خانہ کعبہ کا طواف فخریہ برہنہ ہوکر کیا کرتے تھے۔ جب آنحضورؐ نے تبلیغ دین شروع کی تو اس معاملے پر بھی اولین ترجیح دی اور آپؐ نے اس وقت تک حج کا فریضہ ادا نہ فرمایا کہ جب تک عربوں نے اس موقع پر لباس کو زیب تن نہ کر لیا۔
اسلام بے لباس تہذیب و ثقافت کی سختی سے مذمّت کرتا ہے۔ اسلام لباس کو فطری تقاضا قرار دیتا، اس کی اہمیت کو اخلاق پر بھی مقدم رکھتا، اس سے رُوگردانی کو شیطانی اتباع قرار دیتا ہے۔ اور ایسے حالات و واقعات کی نشان دہی قرآن حکیم میں پہلے ہی کردی گئی ہے، مفہوم: ’’ اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ (آدم و حوا) کو جنّت سے باہر کرادیا۔
ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔‘‘ (سورہ الاعراف) احکامات لباس سے متعلق ایک اور جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اور اے نبی (ﷺ)! اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش یعنی زیور کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی جیسی مومن عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں غرض ان لوگوں کے سوا کسی پر اپنی زینت اور سنگھار کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں ایسے طور سے زمین پر نہ ماریں کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور مومنو! سب اﷲ کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔‘‘ (سورہ النور)
ان قرآنی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے کہا گیا ہے اگر کوئی اس سے رُوگردانی کرے گا تو اس کے لیے فرمایا گیا، مفہوم: ’’اور (دیکھو) کسی مومن مرد عورت کو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (یاد رکھو!) اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گم راہی میں پڑے گا۔‘‘
حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’لوگو! (تنہائی میں بھی) برہنگی سے پرہیز کرو کیوں کہ تمہارے ساتھ فرشتے برابر رہتے ہیں کسی وقت بھی جدا نہیں ہوتے سوائے قضا حاجت کے اور میاں بیوی کی صحبت کے وقت۔‘‘ (ترمذی) حضرت ابُوسعید خدریؓ سے روایت ہے، مفہوم: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مرد دوسرے مرد کے ستر اور عورت دوسری عورت کے ستر (ناف سے رانوں تک) کی طرف نظر نہ کرے ۔‘‘(صحیح مسلم)
حضور اکرمؐ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ران (بھی) ستر میں شامل ہے۔ یعنی اس کا کھولنا جائز نہیں۔‘‘ (ترمذی۔ ابوداؤد) حضرت عبداﷲ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: عورت گویا ستر ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)