Chal Bhaliye Loke Sohne De Dar Tay Chaliye
Posted By: Ahmed on 12-11-2018 | 01:20:16Category: Political Videos, Newsلاہور (انٹرویو : ممتاز شفیع ) یہ 1976ء کی بات ہے، ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے سب سے بااختیار وزیراعظم تھے۔ یوں کہہ لیجئے کہ بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار کا عروج تھا۔ اپنے دورِ اقتدار کے آغاز میں ہی انہوں نے نجی تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا
نامور پاکستانی صنعت کار حاجی محمد بشیر اپنے ایک یادگار انٹرویو میں بتاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تعلیم کے شعبے میں ایک ایسا بحران پیدا ہوا، جس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔ بھٹو مرحوم کے اس اقدام کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ انہوں نے چونکا دینے والے فیصلے کرکے اپنے سرکاری اور عوامی مخالفین کو مرعوب اور متاثر کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ بھٹو صاحب سیاسی انتقام کے لئے قومیانے کی پالیسی پر عمل کررہے تھے، چنانچہ اسی جذبے اور مقصد کے تحت انہوں نے نجی صنعتوں کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت میری دو فلور ملوں اور ایک فیکٹری پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ بھٹو دور میں صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ بنیادی طور پر سخت ناانصافی پر مبنی تھا اور اس انتہائی غلط فیصلے کی وجہ سے ملکی صنعتوں کی تباہی اور بربادی ہی ہوئی۔ ہماری صنعتی ترقی کی رفتار نہ صرف کم ہوئی، بلکہ صنعتی پیداوار مذاق بن کر رہ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قومی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچا۔ بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا اور سرمایہ کاروں میں بہت زیادہ بد دلی اور مایوسی پھیل گئی۔ صنعتوں کو قومیانے کے فیصلے سے مَیں بھی سخت دلبرداشتہ ہوا۔
اپنے صنعتی اداروں سے محروم ہونے کے بعد کچھ عرصے تک تو میں یونہی پھرتا رہا تاہم مَیں مایوس نہ ہوا، مجھے اللہ پر پورا بھروسہ تھا کہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرورملے گا۔ پھر یہ ہوا کہ بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا، جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد سرکاری تحویل میں لی جانے والی صنعتوں کو مالکان کو واپس دینے کا فیصلہ کیا تو مجھے بھی میری ملیں اور فیکٹری مل گئی۔ مَیں نے ہر مشکل وقت میں اللہ پر ہی بھروسہ کیا ہے۔ ایک بار بیٹھے بیٹھے حج کرنے کا خیال دل میں آیا تو مَیں نے فوری طور پر حج کے لئے جانے کا فیصلہ کر لیا اور وہ بھی اس طرح کہ مَیں نے اپنے تمام اثاثے فروخت کر دیئے اور حاصل ہونے والی رقم جیب میں ڈال کر اپنی بیگم سے کہا کہ ’’بھلیے لوکے! چل اسیں دوویں حج کر آیئے‘‘(اے نیک بخت! چلو، ہم دونوں حج کر آئیں) میری بیگم بہت حیران ہوئی۔عزیز رشتہ دار اور دوست احباب بھی حیرت زدہ تھے کہ اپنے لئے آمدن کے نئے ذرائع پیدا کرنے کی بجائے بیگم کے ساتھ حج کرنے جا رہا ہے۔ دراصل مَیں نے کافی غور و فکر کے بعد خود کو یہ کہہ کر سمجھایا تھا کہ
محمد بشیر! تم یہی سمجھ لو کہ ایک مرتبہ پھر کلکتہ کے فسادات کی وجہ سے جمع پونجی لٹا بیٹھے ہو، لیکن اس مرتبہ لٹے پٹے مہاجر کی حیثیت سے لاہور کا رخ نہیں کر رہے ہو، بلکہ خانہ کعبہ حاضری دے رہے ہو۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اس مرتبہ بھی مجھے نوازے گا۔ مَیں ایک بار پھر پہلے کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاؤں گا اور مجھے روپے پیسے کے معاملے میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ دیکھئے، میرا یقین رنگ لایا اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد مَیں فیکٹری اور فلور ملوں کا مالک بن گیا‘‘۔۔۔حاجی محمد بشیر جب اپنی زندگی کے اہم موڑ کی تفصیل بیان کر رہے تھے تو ان کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ وہ ذرا جوش اور جذبے کے ساتھ اپنی زندگی کی جدوجہد کے بارے میں بتا رہے تھے۔ پچھلے چالیس پچاس برسوں سے جو لوگ سرمایہ کاری اور صنعتوں کے شعبے سے وابستہ ہیں، وہ حاجی محمد بشیر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ان کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک ایسے شخص کا تصور اُبھرتا ہے، جو جہد مسلسل کرتے ہوئے ایمانداری اور خدا ترسی کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی لئے نوازا ہے کہ وہ جھوٹ سے سخت نفرت کرتا ہے۔ محنت، محنت اور محنت کے ساتھ دیانتداری کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے اور خدا کی مخلوق کی خدمت کے جذبے سے ہمیشہ سرشار رہتا ہے۔
چنانچہ مَیں سارا کاروباری سلسلہ فروخت کرکے حج کے لئے چلا گیا تو میرے نزدیک یہ کوئی جوا نہیں تھا اور نہ ہی مَیں اسے کوئی غیر معمولی فیصلہ سمجھتا تھا۔ بس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اپنی محنت اور دیانت پر اعتماد بہت تھا اور اللہ نے مجھے اسی کا پھل دیا اور مَیں نے دوبارہ کاروبار شروع کرکے چند ہی سال میں اپنے ذاتی سرمائے سے لاہور ہی میں فلور مل لائی۔ یہ 1962ء کا واقعہ ہے۔ حاجی محمد بشیر اپنی جدوجہد پر مبنی زندگی کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے دین سے لگاؤ، ذاتی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا ذکر کررہے تھے تو ان کے چہرے کی رونق قابل دید تھی۔ ان کے کمرے میں کئی ایوارڈز اور ٹرافیاں بھی پڑی ہوئی تھیں،وہ ان کی طرف بار بار دیکھ رہے تھے۔ دبی زبان میں انہوں نے کئی مرتبہ کہا کہ یہ سب کچھ میری محنت اور دیانت کا پھل ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا، کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں کچھ اس طرح عطا فرماتا ہے کہ بے ساختہ اللہ کی عنایات پر شکر کے کلمات زبان پر رواں ہو جاتے ہیں۔ انسان شکر گزاری کے جذبات اور احساسات سے سرشار رہتا ہے