Woh Waqt Jab Muhammad....Ne Ek Mazoor
Posted By: Abid on 30-10-2018 | 05:07:15Category: Political Videos, Newsلاہور(ویب ڈیسک )بڑے لوگ اپنی انسانی ہمدردی سے عظمت پاتے ہیں تو دنیا ان کے گن گاتی ہے۔بھارت میں عظیم مسلمان گلوکار محمد رفیع کو ہر مذہب کا ماننے والا بے حد عزت و احترام دیا کرتا تھا ۔اسکی وجہ خود محمد رفیع کی ملنساری اور عاجزی تھی جس نے انہیں کبھی سپر سٹار کے تکبر میں مبتلا نہیں کیا تھا ۔
ایک بار حضیف دروخانوالہ نامی معذور نوجوان ان سے ملنے کی چاہ میں انکے گھر تک پہنچ گیا تھا ۔اسکی زندگی کی سب سے بڑی تمنا تھی کہ وہ محمد رفیع سے مل کر ان کوآلات موسیقی کے ساتھ براہ راست سننا چاہتا تھا جبکہ اسکو ہر کسی نے یہ کہہ جھڑک رکھا تھا کہ محمد رفیع جیسے بڑے گلوکار کیونکر اس کے لئے گائیں گے لیکن وہ مایوس نہیں ہوا ۔ایک دن وہ اکیلا ہی جب ان کے گھر پہنچا تو ان کے دربان نے انہیں بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں ۔حضیف دروخانوالہ نے اسے بتایا کہ وہ معذور ہے اور صرف ایک بار محمد رفیع صاحب سے اسکی ملاقات کرادی جائے تو اسکی بڑی تمنا پوری ہوجائے گی ۔لیکن دربان نے اس کی التجا کو در خور اعتنا نہ سمجھا ۔اتفاق سے اس وقت محمد رفیع گھر میں ہی تھے اور لان میں چہل قدمی کررہے تھے ۔یہ سن کر انہوں نے فوری طورنوجوان کو اندر بلایا اور اس کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آئے ۔نوجوان سے پوچھا کہ وہ کیوں ان سے ملنا چاہتا تھا جس پر حضیف دروخانوالہ نے بتایا کہ وہ انہیں اپنی نظروں کے سامنے گاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ۔
محمد رفیع نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر پیار کیا اور پھر اپنی ڈائری منگوا کر کہا کہ تم پرسوں بمبئی لیب آجاو ۔میں تمہیں گانا سناوں گا ۔حضیف دروخانوالہ نے کہا کہ اگر آپ مجھے لکھ کر دے دیں تاکہ جب میں وہاں پہنچوں تو مجھے دھتکار نہ دیا جائے تو محمد رفیع نے اسے تسلی دی کہ وہ اطمینان سے آئے ۔تیسرے روز حضیف دروخانوالہ وہاں پہنچا تو اسے دیکھتے ہی دربان اور دیگر ملازم حتیٰ کہ میوزک ڈائریکٹر بھی بھاگتا ہوا آیا اور انتہائی محبت سے اسکو اپنے ساتھ اندر لے گئے اور کہا کہ وہ سب اس کا بے تابی سے انتظار کررہے تھے۔محمد رفیع صاحب نے سب کو یہ ہدایت کردی تھی کہ جب تک یہ معذور نوجوان چاہے اور جب بھی چاہے اسے مجھ سے ملوادیا جائے ۔میں اسکے لئے خاص طور پرگانا گایا کروں گا ۔حضیف دروخانوالہ نے بعد ازاں تعلیم حاصل کرکے اپنا مقام حاصل کیا اور محمد رفیع صاحب سے خط و کتابت بھی کرتا تھا جس کا وہ ترنت جواب دیتے تھے ۔ (ایس چودھری)