Mere Nawaz Shrif Se Ikhtalafaat Ki Asal Wajah Kya Hai?
Posted By: Pango on 28-07-2018 | 08:31:18Category: Political Videos, Newsمیرے نواز شریف سے اختلافات کی اصل و جہ کیا ہے ؟ اور سی پیک منصوبے پر آواز اٹھانے پر انہوں نے ایجنسیوں کو میرے حوالے سے کیا احکامات جاری کیے تھے ؟ سلیم صافی کے دھماکہ خیز انکشافات اس خبر میں ملاحظہ کریں
لاہور(ویب ڈیسک)مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میاں نوازشریف بطور لیڈر اور مسلم لیگ بطور جماعت کبھی میرے فیورٹ نہیں رہے ۔ میں نے یا میرے خاندان کے کسی فرد نے کبھی مسلم لیگ (ن ) کو ووٹ نہیں ڈالا۔ انسانی نظریات کی تشکیل میں اس کے ماحول اور پس منظر کا
مشہور تجزیہ نگار اور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بنیادی کردار ہوتا ہے اور میں چونکہ آٹھویں جماعت میں اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوا تھا اس لئے دیگر جماعتیوں کی طرح میں بھی مسلم لیگ اور اس کی قیادت کو ناپسند کرتا رہا۔ میدان صحافت میں قدم رکھا تو تصورات اور سیاسی نظریات تبدیل ہوئے لیکن جو نئی سو چ تشکیل پائی اس میں بھی میاں نوازشریف یا ان کی جماعت کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی ۔ جب پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کو جیل میں ڈالا یا پھر انہیں جلاوطن کیا تو آمریت اور جمہوریت کے درمیان کشمکش کامعاملہ بن گیا ۔ چنانچہ اس عرصے میں اس جماعت سے متعلق نرمی سے کام لیتا رہا اور 2013 کے انتخابات تک چونکہ میاں صاحب جمہوری کیمپ میں اور ان کے مخالفین کے لاڈلے رہے ، اس لئے میری زبان اور قلم ان سے متعلق نرم رہے ۔ تاہم جس دن میاں نوازشریف اقتدار میں آئے ، اس دن سے دوبارہ مخاصمت شروع ہوئی۔ محترم مریم نواز صاحبہ جس دن وزیراعظم ہائوس کے اندر گئیں، اس دن سے میں ان کے نقادوں اور مغضوب صحافیوں کی صف میں شامل ہوا ۔ پورے چار سال بعد میری ان سےملاقات تب ہوئی ، جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وہ وزیراعظم ہائوس سے نکل گئیں۔
میاں نوازشریف سے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں کبھی کبھار ملاقات ضرورہوجاتی تھی لیکن ان کے وزیراعظم بنتے ہی ، میں ان کے ناپسندیدہ ترین صحافیوں میں شامل ہوگیا تھا۔ سی پیک جیسے معاملات پر تو میرے اور ان کی حکومت کے معاملات اس قدر خراب ہوئے کہ ان کی ٹیم انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی ۔ مجھے ایجنسیوں کے ذریعے تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ میرے ادارے کے مالکان پر دبائو ڈالا جاتا رہا کہ وہ مجھے نکال دیںیا پھر خاموش کریں ۔ احسن اقبال اور عرفان صدیقی نے توچینیوں تک کو میرے خلاف ورغلایا اور انہیں بتاتے رہے کہ میں انڈین لابی کا بندہ ہوں اس لئے سی پیک کے حوالے سے حکومتی رویے پر تنقید کررہا ہوں۔دھرنوں کے موقع پر دیگر جمہوریت پسندوں کی طرح میں نے اپنی استطاعت کے مطابق دھرنا برداروں کا مقابلہ ضرور کیا اور سسٹم کے ساتھ کھڑا رہا لیکن دھرنے ختم ہوتے ہی سی پیک ، سول ملٹری تعلقات اورفاٹا کے ادغام جیسے معاملات پر دوبارہ صرف میاں نوازشریف نہیں بلکہ ان کے اتحادیوں کے ساتھ بھی مخاصمت عروج پر پہنچی ۔میرے خلاف مہم چلائی گئی اور طرح طرح کے فتوے تک لگائے گئے۔عرفان صدیقی اینڈ کمپنی میرے خلاف کان بھرتے رہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں فوج یا پھر چوہدری نثار علی خان کے کہنے پر کررہا ہوں۔
غرض جب سے میاں نوازشریف وزیراعظم بنے، ا س دن سے لے کر وزیراعظم ہائوس سے ان کے نکالے جانے تک میرا کوئی ایک کالم یا ٹی وی پروگرام ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جو میں نے میاں نوازشریف یا مریم نواز صاحبہ کی ستائش یا تائید میں لکھا یا پیش کیا ہوالبتہ ان کے خلاف لکھے گئے کالموں اور پیش کردہ پروگراموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ جو میری رائے رہی، کم و بیش وہی میرے گھر والوں کی بھی مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے بارے میں رہی ۔ میری والدہ ایک دیہاتی اور سیاست کی الف ب سے ناواقف عمررسیدہ اور بیمار خاتون ہیں ۔ وہ چونکہ بستر سے اٹھ نہیں سکتیں اس لئے بڑی کوشش کی کہ ان کے کمرے میں ان کے لئے ٹی وی لگوادوں لیکن وہ ٹی وی اس لئے لگانے نہیں دے رہیںکہ اس سے ان کی عبادت میںخلل پڑتا ہے۔ یوں وہ نہ سیاست کے مدوجزر سے واقف رہتی ہیں اورنہ صحافتی نزاکتوں سے ۔ ان کی زندگی اور سوچ گھر تک اور مصروفیات بستر یا پھر عبادات تک محدود ہیں۔ تاہم کچھ عرصہ سے وہ دو سیاستدانوں کو ناپسند کرنے لگی تھیں۔ ایک عمران خان اور دوسرے نواز شریف ۔ عمران خان کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ یہ شخص بدتمیزی اور بے حیائی کا کلچر پھیلارہا ہے۔