PTI Vs PTI - News - June 2018
Posted By: Abid on 16-06-2018 | 07:35:49Category: Political Videos, News1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا تو ن لیگ کو توڑنے کےلیے ہم خیال مسلم لیگ اور پھر ق لیگ تشکیل دی گئی تو اس وقت بھی سیاسی پنچھیوں نے اپنا ٹھکانہ بدل کر ق لیگ کو اپنا مسکن بنالیا۔ ٹکٹوں کے مفاد میں بہت سے سیاسی پنچھی اب ن لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سے ٹکٹ ملا تو ایم پی اے یا ایم این اے تو بن ہی جائیں گے۔
دوسری سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی ميں شمولیت کا سلسلہ دھڑادھڑ جاری رہا اور ٹکٹوں کی تقسیم سے قبل اس خدشے کا اظہارکیا جارہا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا پرانا ورکر اسی خوش فہمی میں رہا کہ ٹکٹ تو اسے ہی ملے گا، ٹکٹ کے حصول کے لیے تعلقات کو بھی استعمال کیا گیا سفارشی پرچی بھی چلی لیکن ہوا وہی جو عمران خان کو قائل کرگیا۔
خیبرپختونخوا میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے امیدواروں کی فہرست آنے کے بعد نئے اور پرانے ساتھیوں کےلیے حیرانی ضروری تھی۔ گزشتہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی لیکن این اے ون، جس پر عمران خان نے کامیابی حاصل کر کے بعد میں سیٹ چھوڑ دی تھی، اس پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ اس بار پشاور میں قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر پی ٹی آئی نئے امیدواروں کو سامنے لے کر آئی ہے اور چاروں امیدوار دوسری پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ این اے 27 پر پیپلز پارٹی سے شامل ہونے والے نور عالم، این اے 28 پر اے این پی چھوڑ کر آنے والے ارباب عامر ایوب کو اور این اے 31 کا ٹکٹ پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے شوکت علی کو دیا گیا ہے۔
باقی حلقوں میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پرانے ورکرز پیراشوٹ سے آنے والوں کو ٹکٹ دینے پر خفگی کا اظہار کررہے ہیں۔ کئی حلقوں پر پی ٹی آئی کے پرانے ورکرز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم کےلیے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سربراہی میں بننے والے پارلیمانی بورڈ میں ٹکٹ اسی کو ملا جس پر متعلقہ صوبے کے ممبران عمران خان کو قائل کرگئے۔
سابق وزیراعلی پرویزخٹک سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور انہوں نے پہلے سے ہی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کام شروع کردیا تھا۔ اپنی ٹیم بنانے کے لیے انہوں نے دوسری پارٹیوں سے ایسے لوگوں کو چنا جو اپنی سیٹ جیتنے اور جیتنے کےلیے پیسے لگانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ چونکہ عمران خان کی سربراہی میں پارلیمانی بورڈ کی جانب سے کسی کو ٹکٹ ملنے کا انحصار عمران خان کے قائل ہونے پر تھا، اور اپنے لوگوں کو ٹکٹ دلانے کےلیے پرویزخٹک پوری تیاری کے ساتھ گئے تھے اس لیے وہ کامیاب ٹھہرے۔
مگر ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد اب اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جس پر عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے وہ 90 فیصد مطمئن ہیں، باقی دس فیصد پر وہ نظرثانی کررہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ دو روز میں نظر ثانی کےلیے اجلاس بلارہے ہیں۔ لیکن اب وقت گزر گیا ہے اور جہاں سے پی ٹی آئی کے ورکرز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے وہاں کسی حد تک پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوگا۔
پی ٹی آئی پر جہاں پیرا شوٹ سے آنے والوں کو ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں وہیں نوجوانوں کو نظرانداز بھی کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے امیدواروں کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں نوجوان اِکا دُکا ہی نظر آرہے ہیں۔ ٹکٹ لینے والوں میں زیادہ تعداد پچاس سال سے زیادہ عمر والوں کی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بہت ہی کم ایسے امیدوار ہیں جو چالیس سے 45 سال کے ہیں۔ بہت سے ایسے نوجوان ٹکٹ کے حصول میں رہ گئے ہیں جنہیں ٹکٹ دینے کے وعدے کیے گئے تھے لیکن انہیں ٹکٹ نہ مل سکے۔
آنے والے الیکشن میں اگر پی ٹی آئی کو نقصان پہنچے گا تو وہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ہی ٹھکرائے گئے ورکرز سے ہوسکتا ہے۔ اسی لیے سیاسی حلقوں میں یہی بات چل رہی ہے کہ تحریک انصاف کو تحریک انصاف ہی شکست دے سکتی ہے۔