Lock Down Mein Ek Pregnant Aurat...Woman Par Kya Guzarti Hai?
Posted By: Akku on 25-04-2020 | 02:10:26Category: Political Videos, Newsکورونا وائرس: لاک ڈاؤن میں ایک حاملہ خاتون پر کیا گزرتی ہے؟
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کے مکین خطرے کی زد میں ہیں لیکن اس صورتحال میں کچھ اضافی احتیاط ان خواتین کو کرنی پڑ رہی ہے جو ماں بننے والی ہیں۔ تہمینہ قریشی بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنھوں نے بی بی سی سے اپنی ڈائری شیئر کی ہے۔
میرے پہلے بچے کی پیدائش اگلے ہفتے متوقع ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ میری ہائی رسک پریگنینسی ہے یعنی سی سیکشن ہو گا۔ اس صورتحال کی وجہ سے مجھے عام حاملہ خواتین کی نسبتاً زیادہ مرتبہ تقریباً یعنی ہر دوسرے ہفتے ہی ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔
گذشتہ دو ماہ سے کورونا وائرس کی وبا پھیلنے اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرا ہسپتال آنا جانا مختصر سفر، خوف اور تھکاوٹ سے پرخطر اور بہت حد تک طویل سفر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تین روز قبل ڈاکٹر نے مجھے چیک اپ کے لیے بلایا، چھوڑنے تو میرے شوہر گئے لیکن اب وہ دو ماہ پہلے کی طرح میرے ہمراہ اندر ہسپتال میں نہیں جا سکتے کیونکہ سماجی دوری کا ضابطہ ہسپتالوں میں بھی نافذ کیا جا رہا ہے یعنی ہسپتال میں جتنا کم رش ہو اتنا ہی اچھا ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرے گھر کے پاس قریب چند علاقے سیل ہیں۔ مجھے باہر نکلتے وقت راستوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ کس جانب زیادہ ناکے ہیں تاکہ اس طرف سے نہ جائیں کیونکہ اس کی وجہ سے چیکنگ میں مزید وقت لگتا ہے اور یوں اضافی وقت گھر سے باہر وبا کے خطرے میں گزرنے میں لگتا ہے۔
جب یہ وبا شروع ہوئی تھی تو ہسپتال میں یک دم رش بڑھ گیا تھا۔ میں جس ہسپتال میں علاج کروا رہی ہوں وہاں ہر شخص کی ہسپتال میں داخلے کے وقت سکریننگ کی جاتی ہے۔
اب ہسپتالوں کے شعبہ بیرونی مریضاں میں رش کم ہو گیا ہے اور ٹیلی کلینک کا آغاز ہوا ہے۔ بلکہ ایک بار میرا چیک اپ بھی آن لائن ہی ہوا تھا۔ اب چیک اپ کے لیے ہسپتال آنے سے پہلے فون پر بھی طبعیت اور جسمانی حالت پوچھی جاتی ہے تاکہ جتنا کم ہو سکے ہستپال میں حاملہ خواتین کو بلایا جائے۔ ڈاکٹرز اب ہر حاملہ خاتون کو ہسپتال نہیں بلاتیں بلکہ میرے جیسے مریضوں کو بلا رہی ہیں جن کی حمل میں پیچیدگیاں ہیں یا پھر ان کے بچے کی ولادت کا وقت قریب ہے۔
وبا کی اس صورتحال سے مجھ میں ذہنی دباؤ اور پریشانی بڑھی ہے۔ حمل بذات خود ہی ایک مشکل اور دباؤ والا مرحلہ ہے، اس دوران ذہنی اور جسمانی تبدیلی اور خاص طور پر آنے والے بچے کی حفاظت سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
اب اس وبا کے آنے کے بعد ہسپتال جانا اس لیے بھی مشکل لگتا ہے کیونکہ پہلے اتنی احتیاط تو نہیں کی جاتی تھی۔ اب ماسک، دستانے پہننے ضروری ہوتے ہیں۔
ہسپتال میں کبھی کبھی تین تین گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے۔ پہلے پیاسں لگتی تھی بھوک لگتی تھی تو ہم فوراً کچھ لے کر کھا لیتے تھے لیکن اب یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر ماسک ہٹاؤں گی تو پھر ہسپتال کی فضا میں سانس لینا پڑے گا پھر کھانا پینا پڑے گا۔ اس لیے دو گھنٹے ہوں یا چار بغیر کچھ کھائے ہی گزارتی ہوں۔
شاید بھوکا رہنے کی وجہ سے تھکاوٹ کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ اب گھر آ کر مجھے تھکن اتارنے میں دگنا وقت لگتا ہے۔ اپنے فون اور اپنی عینک کو سینیٹائزر سے صاف کرتی ہوں ماسک اور دستانے اتارنا، کپڑے بدلنا انھیں دھونا اور خود نہانا یہ گھر میں داخل ہوتے ساتھ فوری طور پر کیے جانے والے کام ہیں۔
بچے کی آمد کی تیاری میں نے ابھی کچھ خاص نہیں کی۔ ابھی میں نے شاپنگ کرنی شروع ہی کی تھی تو لاک ڈاؤن ہو گیا۔
تھوڑی سی چیزیں ہی خرید پائے تھے لیکن اب احساس ہو رہا ہے کہ بہت سی چیزیں جو ضروری ہیں وہ ہم میاں بیوی نہیں لے پائے۔ میں نے آن لائن خریداری کی کوشش کی ہے۔ ابھی میں انتظار کر رہی ہوں کہ ایک ہفتے میں مجھے یہ چیزیں مل جائیں۔ لیکن اگر کہیں چیزیں مل بھی رہی ہیں تو مسئلہ ڈیلیوری سروس کا ہوتا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ میرے بچے کی ولادت عام حالات میں نہیں ہو رہی۔ یہ تو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سی سیکشن ہوگا لیکن اب سماجی دوسری کی وجہ سے مجھے اندازہ ہے کہ نہ تو ہسپتال میں مجھے اور میرے بچے کو دیکھنے کوئی آ سکے گا اور نہ ہی میرے گھر آنے کے بعد فوری طور پر عزیز و اقارب مٹھائی کھانے آ پائیں گے یا پھر کوئی رسم ہو پائے گی۔
لیکن میرے لیے اس سب سے قیمتی میرے بچے کی صحت اور زندگی ہے جس کے لیے میں نے لاک ڈاؤن کے پورے عرصے میں سماجی دوری پر سختی سے عمل کیا اور کوشش کی کہ خود بھی کم سے کم لوگوں سے براہ راست ملوں۔
شاید عام حالات میں بہت سے دوستوں اور اپنے عزیز و اقارب کو یہ خوشی کی خبر خود بتاتی لیکن میں نے احتیاطً ایسا نہیں کیا۔