Top Rated Posts ....
Search

Shy bodybuilding and embarrassing squad of children

Posted By: Joshi on 22-06-2019 | 07:09:46Category: Political Videos, News


جبری جسم فروشی اور بچوں کو گندہ کرنے کا شرمناک دھندہ ۔۔۔ یہ نامور اداکارہ کس گروہ کی سرگرم کارکن نکلی اور اس کا طریقہ واردات کیا تھا ؟ تہلکہ خیز انکشافات
واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکہ میں جنسی جرائم کے ایک منظم گروہ کے سرغنہ کیتھ رینری پر نیویارک کی ایک عدالت میں جبراً جسم فروشی اور بچوں کی فحش فلمیں بنانے کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔ رینری 20 برس تک نیکسیئم نامی ایک گروہ کے لیڈر رہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ

بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ا’پنی مدد آپ‘ کرنے کے اصول پر بنایا گیا ایک گروپ ہے اور اس کے ارکان یا پیروکاروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران گروہ کے سابق ارکان نے گروہ کے طریقہ واردات اور کارگزاریوں کے بارے میں اہم اور خفیہ تفصیلات فراہم کیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح گروہ کے ارکان کو اپنے سابق ازدواجی رشتے، ناطے اور تعلق ختم کرنے پر مجبور کیا جاتا اور انھیں ذہنی اور جمسانی بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا۔ کچھ ارکان کو اسقاط حمل پر مجبور کیا جاتا۔ ’غلام اور آقا‘ کی طرح کے اس نظام میں خواتین کو اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے ضمانت کے طور پر اپنی فحش اور تضحیک آمیز تصاویر جمع کرانا پڑتی تھیں۔ ان انکشافات نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا اور دنیا بھر کے اخبارات میں اس گروہ کی خبروں کو شہ سرخیوں میں شائع کیا گیا۔ لیکن حقیقت میں نیکسیئم نے اس بات سے پردہ اٹھایا کہ ایسے گروہ کیسے کام کرتے ہیں۔ اس طرح کے گروہوں کا ڈھانچہ تہ در تہ پیاز کی مانند ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ قابل قبول ارکان باہر کی جانب ہوتے ہیں اور اندرونی پرتیں رازداری اور جرائم کے پراسرار پردوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں جن سے گزر کر نئے بھرتی شدہ ارکان مرکز سے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ نیکسیئم کے معاملے میں سطح بظاہر ذاتی اصلاح کے بے ضرر پروگراموں پر مشتمل تھی جس میں گروہ کے ارکان اپنے دوستوں، رشتہ داروں، خاندان والوں اور ساتھ کام کرنے والوں کو بھرتی کرتے تھے۔

گروہ کا قلب مکمل طور پر رنبری کی گرفت میں تھا جہاں مبینہ طور پر جنسی استحصال، تشدد اور خواتین کے جسموں پر اپنا نام داغنے جیسے کام بھی کیے جاتے تھے۔ امریکی جریدے فوربز کے مطابق سنہ 2003 میں حکام کو نیکسیئم کی سرگرمیوں کے بارے میں خبردار کردیا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ ان شکائتوں پر چارہ جوئی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو حکام نے رد کر دیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ زیادہ تر خواتیں اپنی رضامندی اور رضاکارانہ طور پر گروہ میں کام کرتی ہیں یا پھر قانونی پیچیدگیوں کی وجہ اس گروہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں ہو سکی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس قسم کے گروہوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کرنے میں کیا پیچیدگیاں پیش آ سکتی ہیں خاص طور پر جہاں ارکان کا یہ کہنا ہو کہ وہ اپنی منشا سے کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی موجودہ یا سابق رکن گروہ کے خلاف قانونی کارروائی کا خواہش مند ہو بھی تو بہت سے لوگ ممکنہ ردعمل اور اس گروہ سے تعلق رکھنے کی بدنامی کے ڈر سے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں نفسیاتی استحصال کے حوالے سے قوانین میں سقم یا ایسے گروہوں کی کوئی ٹھوس قانونی تشریح نہ ہونے کی وجہ سے ان سے متعلق کیسوں کو عدالتوں میں ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فرانس میں ’آباؤٹ پک آرڈ‘ قانون لوگوں یا گروہوں کو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے روکتا ہے جن کا مقصد جسمانی یا نفسیاتی تسلط حاصل کرنا ہو۔ اسی طرح کے قانون لیگزمبرگ اور بیلیجیئم میں بھی موجود ہیں لیکن ایسے ممالک کی تعداد بہت کم ہے۔

برطانیہ میں جبر کے خلاف 2015 میں ایک نیا قانون لایا گیا جس کے تحت کسی شخص کو فائدے کی غرض سے نفسیاتی استحصال کا نشانہ بنانا جرم قرار دیا گیا۔ یہ قانون جسمانی تشدد نہ ہونے اور متاثرہ شخص کے گواہی نہ دینے کی صورت میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ نیکسیئم کا کیس اس کے ارکان میں چند مشہور شخصیات کے شامل ہونے کی وجہ سے خاصا مقبول ہوا۔ اداکارہ ایلیسن میک اور ایک ارب پتی کاروباری شخصیت کی بیٹی کلاری برانف مین بھی اس کی رکن تھیں۔ تاہم ان گروہوں کا طریقہ واردات ایک ہی ہوتا ہے اور یہ معاشرے کی ہر سطح پر سرگرم ہوتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ کچھ مذہبی، سیاسی یا ’ذاتی اصلاح‘ کے ہوتے ہیں لیکن عوامی سطح پر انھیں مارشل آرٹس، یوگا، کاروبار اور تھراپی گروپ کا ملمع چڑھا ہوتا ہے۔ ایسے گروپوں میں شامل سب پیروکاروں کو بھرتی نہیں کیا جاتا بلکہ بعض گروپ کے اندر ہی پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں۔ ‘چلڈرن آف گاڈ’، فنڈامینٹل چرچ آف لیٹر ڈے سینٹ’ ، ٹویول ٹرائب’ اور دیگر ناموں سے قائم کئی گروپوں کے سابق ارکان نے اپنے ساتھ ہونے والے زیادتیوں اور بدسلوکیوں کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی ہے۔ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے جرائم کے مقدمات میں بھی آہستہ آہستہ سزائیں ہو رہی ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ بہت سے دہشت گرد اور شدت پسند گروپ بھی اسی طرح کے تنہائی کے عمل کے ذریعے اپنے ممبران کو بھرتی کرتے ہیں اور ان کے ذہن تبدیل کرتے ہیں۔

یہ گروہ ’کرشماتی شخصیت‘ اور آمرانہ طرز عمل کے حامل رہنما یا ایسے لوگوں کا گروپ چلاتا ہے جو اپنے پیروکاروں کو ہر لحاظ سے اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ گروہ کے لیڈر کے گرد عمودی حفاظتی پرتیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ پیروکاروں کو سماجی، نفسیاتی اور کبھی کبھی جسمانی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے۔ لیڈر کے رویے کو مجموعی طور پر متفق نظام کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے جس میں تمام جواب موجود ہوتے ہیں۔ برین واشنگ کا ایک عمل کیا جاتا ہے۔ گروپ میں مکمل طور پر شمولیت سے خود سے قائم کردہ تعلقات اور سرگرمیوں کے لیے کوئی وقت میسر نہیں ہوتا۔ یہ گروپ بظاہر محبت یا توجہ کے نقطے نظر کو ذہنی دباؤ اور خوف میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کو نیند یا کھانے سے محرومی کی صورت میں یا الہامی پیش گوئیوں، تشدد یا جنسی زیادتی کی دھمکیاں دے کر یہ سب یقینی بنایا جاتا ہے۔ تشدد آمیز کنٹرول کا یہ عمل ایسے مداح پیدا کرتا ہے جو اپنی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے لیڈر کے زیر کنٹرول ہوتے ہیں۔ نیکسیم کے مقدمہ کی کوریج کے دوران عمومی رد عمل اکثر یہی تھا کہ ‘میرے ساتھ تو ایسا کچھ نہیں ہوا’ لیکن اس گروہ میں بھرتی بدسلوکی یا گروپ کا نشان جسم پرداغے جانے سے نہیں ہوتی تھی۔ ابتدا میں کسی ایسی چیز کی پیشکش کی جاتی جس میں کوئی شخص دلچسپی رکھتا ہو۔ جسمانی، نفسیاتی، سیاسی، مالی یا پھر کوئی روحانی منفعت جو ان کے کسی دوست یا ساتھی کی تجویز کردہ ہو۔

کسی کی شخصیت کی کوئی کمزوری، خصوصیات یا خصلت کے علاوہ اکثر اوقات لوگوں کے نجی زندگی کے مسائل بھی ایسے گروہوں میں شامل ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔ متاثرہ شخص کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل مثلاً کسی رشتے یا تعلق کا ٹوٹنا یا نئی جگہ آ کر آباد ہونا بھی وہ عوامل ہو سکتے ہیں جن سے گروہوں کو نئے ارکان بھرتی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس صورت حال میں اکثر لوگ نئے دوست اور نئی شناسائیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں یا کسی ایسی اجتماعی سرگرمی میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو اصل میں ایسے گروہوں سے متعلق ہوتی ہے۔ ایسا انھیں تنہا کرنے کے عمل اور مکمل طور پر گروپ میں ضم کر لینے کے بعد شروع ہوتا ہے جب وہ خود کو بھول جاتے ہیں اور ان کے لیے اس بات کا احساس کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل میں ان کے ساتھ کیا واردات ہو رہی ہے۔ یہ جبر کے ہتھکنڈے کس طرح استعمال کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی لوگوں کو انہیں سمجھنے اور ان سے بچنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ لوگوں میں آگاہی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے ذریعے بھی پیدا کی جا سکتی ہے تاکہ وہ اس طرح کے شکاری یا لوگوں کی تاک میں رہنے والے گروہوں سے بچ سکیں۔برطانیہ میں خاندان اور اس کے باہر بھی رشتوں میں جبر کے خلاف قانون کے نفاذ کے ذریعے بھی حکام اور معاشرہ ایسے جرائم اور سرگرم گروہوں کی بیخ کنی کرسکتے ہیں۔

رینری مرد ہوتے ہوئے اس گروہ کا کرتا دھرتا تھا تاہم اس کام میں بڑی تعداد میں خواتین بھی اس کی معاون تھیں۔مبینہ طور پر بھرتی کی جانے والی خواتین کے جسم رینری کے ابتدائی نام سے داغے جاتے تھے اور ان سے یہ امید ہوتی کہ وہ اس سے جنسی تعلق رکھیں۔ نیکسیئم کی پانچ ایسی خواتین نے اپنے جرائم کو تسلیم بھی کیا ہے۔ ان خواتین میں سب سے زیادہ مشہور ٹی وی شو سمال فیل کی سابق اسٹار اداکارہ الیسون میک تھیں۔ میک نے اس سے قبل ان گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا تاہم اپریل میں انھوں نے اپنے جرائم تسلیم کرلیے۔ میک نے یہ تسلیم کرلیا کہ انھوں نے دھوکے بازے سے خواتین کو اس گروپ میں شامل کیا۔ اب میک کو ستمبر میں ان جرائم کی سزا سنائی جائے گی۔ دونوں جرائم کی علیحدہ 20 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ سیگرام میخانے کی مالک کلیر برونف مین نے اپریل میں غیر قانونی تارکین وطن کو مالی فائدے کے لیے پناہ دینے کے جرم کو تسلیم کرلیا ہے۔ برونف مین نے دھوکہ دہی سے ان کی اصل شناخت کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ برونف پر نیکسیئم کو 77 ملین پاؤنڈ سے زیادہ رقم دینے کے الزام کا سامنا تھا۔ اس گروپ کی دوسری بانی رکن نینسی سالزمین نے بھی خواتین کو زبردستی گروپ میں شامل کرنے کے جرم کو تسلیم کرلیا ہے۔ اب ان کو جولائی میں سزا سنائی جائے گی۔ نینسی کی بیٹی لاؤرن سالزمین اور نیکسیئم گروہ کی ملازم کیتھلے رسل نے بھی اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا ہے۔(ش س م) (بشکریہ : بی بی سی )

Comments...
Advertisement


Follow on Twitter

Popular Posts
Your feedback is important for us, contact us for any queries.