Extremely criticized on opposition budget
Posted By: Kabir on 18-06-2019 | 22:12:42Category: Political Videos, Newsاپوزیشن کی بجٹ پر شدید تنقید، پارلیمنٹ سے منظوری بڑا چیلنج
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانیوالے پہلے وفاقی بجٹ پر قومی اسمبلی اور عوامی اسمبلی میں خوب تنقید ہو رہی ہے اور حکومت کیلئے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کروانا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے حکومت اور اسکی اتحادی جماعتیں سر جوڑ ے بیٹھی ہیں اور مسلسل مشاورت جاری ہے۔
وزیراعظم عمران سیاسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے عید کے بعد سے خود سب سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
پارٹی ترجمانوں کے بھی اجلاس ہو رہے ہیں جس میں اپوزیشن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کی جھلک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومتی رہنماوں کے دھواں دھار بیانات و تقاریر میں نظر بھی آرہی ہے، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکمران جماعت کی یہ حکمت عملی حکومت کو اس مشکل سے نکالنے کیلئے کارگر ثابت ہوگی یا اس سے آنے والے دنوں میں حکومت کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور ملک کے سیاسی، سماجی و اقتصادی اور سفارتی حلقوں میں اس وقت یہی سوال زیر بحث ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت کو دل بڑا کرنا چاہئیے اور جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے معاملات میں سلجھاو لانے کی کوشش کی جانی چاہیئے اور حکمت عملی سے اپوزیشن کا مقابلہ کرنا چاہیئے کیونکہ بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری ناگزیر ہے اس کے بغیر حکومت کو وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ خود تحریک انصاف کے اندر بھی مثبت اور میچیور سیاسی سوچ رکھنے والے رہنما بھی اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں اور پارٹی کے اندر بھی معتدل رائے رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے حوالے سے اپوزیشن کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
پیر کو تحریک انصاف کے سربراہ و وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونیوالے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی رہنماوں کی جانب سے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں متعدد اراکین نے بجٹ منظوری کیلئے اپوزیشن جماعتوں سے معاملات ٹھیک کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کے احتجاج اور خصوصی طور پر ان کی تقریر کے دوران احتجاج و شورشرابا سے سخت نالاں ہیں اور جن رہنماوں کی جانب سے وزیراعظم کو اپوزیشن کے ساتھ بجٹ سیشن کے دوران ماحول بہتر بنانے کا مشورہ دیا گیا ان کے مشورے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سے ضمانت لے کر دیں مجھے تقریر کرنے دیں گے پھر اپوزیشن بات کرے گی۔
اسی طرح خالد مگسی کی جانب سے بجٹ کی منظوری کیلئے حکومت کی اتحادی جماعتوں کے کردار پر بھی بات ہوئی ہے اور یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا حکومت کی اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری کیلئے حکومت کا ساتھ دیں گی۔
دوسری جانب حزت اقتدار بھی حکومت کے خلاف صف بندی میں مصروف ہے اور حزب اقتدار کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلیے متفق ہوگئی ہیں جب کہ یہ اتفاق رائے گزشتہ دنوں بلاول اور مریم نوازکے مابین ملاقات کے دوران طے پایا ہے اور اگر اپوزیشن اس میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا کیونکہ صادق سنجرانی گزشتہ سال پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت سے چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔ انھوں نے 57 ووٹ لیے تھے جبکہ ن لیگ کے راجہ ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے،اس وقت بھی ن لیگ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی (ف) کے سینیٹ میں 46 ارکان ہیں، 29 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں بیشتر کا تعلق ن لیگ کے ساتھ ہے، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو سینیٹر ہیں، اے این پی، فنکشنل لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 14، متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی پانچ جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 2 دوہے۔ سینیٹ کو چلانے کیلیے چیئرمین کی اہمیت ہونے کے علاوہ وہ صدر پاکستان کی غیرموجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ بھی سنبھالتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلئے 53 ارکان کی حمایت درکار ہے جو پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جے یو آئی ف اوردیگراپوزیشن جماعتیں مل کرآسانی سے پورا کر سکتی ہیں کیونکہ اے این پی پہلے ہی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کر چکی ہے اور اے این پی کے رہنما زاہد خان کہہ چکے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کو نہ ہٹایا گیا تو عوام بلاول اور مریم نواز پر اعتماد نہیں کریں گے۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف کارروائی آئین کے سیکشن 11 کے تحت کی جاتی ہے جبکہ اس سیکشن میں دیئے گئے طریقہ کارکے مطابق ایوان کے ایک چوتھائی ارکان آرٹیکل 61 کے تحت قرارداد کیلیے سیکرٹری کے پاس تحریری نوٹس جمع کرواتے ہیں جس کی کاپی ارکان میں تقسیم کی جاتی ہے اور خفیہ ووٹنک کرائی جاتی ہے۔ چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جس کیخلاف بھی قرارداد آئی ہو وہ اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتا اور اگر حکومت چیئرمین سینٹ کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو معاملہ یہاں نہیں رکے گا اور بات بڑھ کر ان ہاوس تبدیلی تک پہنچ جائے گی کیونکہ اس وقت جو حالات بن رہے ہیں اس میں حکومت کی اپنی اتحادی جماعتیں بھی حکومت سے نالاں دکھائی دے رہی ہیں۔
اگرچہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عید کے بعد سے شروع ہونے والی گرفتاریوں کے سلسلے نے خود حکمران جماعت کے اتحادیوں میں خوف پیدا کردیا ہے اور ان گرفتاریوں و احتساب کے عمل کے باعث اتحادی جماعتوں کے حکمران جماعت سے بڑھتے ہوئے فاصلے سمٹ گئے ہیں اور پھر سے ایک جان ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ابھی نیب کی جانب سے حالیہ بورڈ اجلاس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف بھی انکوائریز کو تحقیقات میں بدلنے سمیت دیگر اہم منظوریاں دی گئی ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عید قربان سے پہلے مزید بہت سی قربانیاں ہونے کو ہیں اور ابھی گرفتاریوں سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم کی جانب سے ہائی پاور کمیشن قائم ہونے جا رہا ہے اور اس میں بھی پانچ ہزار لوگوں کی فہرست کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ اعلی اختیاراتی کمیشن اصل میں جے آئی ٹی کا اپ ڈیٹڈ ورشن ہوگا چونکہ ہمارے ہاں ہر ڈیویلپمنٹ کو سیاست سے جوڑا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں ہونے والی حالیہ ترقیوں و تقرریوں کو بھی اسی تناظر میں لیا جا رہا ہے اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے دیگر معاملات کی طرح ملکی معیشت کے حوالے سے بھی اسٹیبلشمنٹ کے مستقل کردار کی باتیں ہو رہی ہیں اور قومی سلامتی کی طرح قومی اقتصادی سلامتی کونسل و کمیٹی کے قیام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں جس میں ملک کی سول و ملٹری قیادت شامل ہوگی۔
تاہم اس کی سربراہ سویلین قیادت ہوگی اور ملٹری قیادت کو اس میں نمائندگی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں خارجی محاذ پر بھی فیٹف اور آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی ڈونرز و ممالک کے حوالے سے بھی اہم ڈویلپمنٹس متوقع ہیں، ایک جانب تین جولائی کو آئی ایم ایف بورڈ پاکستان کیلئے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری کا جائزہ لینے جا رہا ہے اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو چین ، سعودی عرب اور یو اے ای سے حاصل کردہ قلیل المعیاد قرضے رول اوور کرنے کا کہا جا رہا ہے جس بارے میں گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا نے پیر کو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بار بار سوال اٹھانے کے باوجود کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ان کا یہ کہنا ضرور تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں اور تین جولائی کو آئی ایم ایف بورڈ سے پروگرام منظور ہونے کی توقع ہے اسکے بعد عالمی بینک و ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی تین سے چار ارب ڈالر کی فنانسنگ مل جائے گی۔
عالمی بینک کے حوالے سے اچھی خبر ہے کہ عالمی بینک ٹیکس اصلاحات اور ہائر ایجوکیشن کے فروغ کیلئے پاکستان کو91 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا قرضہ فراہم کرے گاجس کیلئے پاکستان اور عالمی بینک میں معاہدہ طے پا گیا ہے۔