The person who puts the girl's entry into the main case and the case bounce
Posted By: Kabira on 15-06-2019 | 18:16:20Category: Political Videos, Newsاہم ترین کیس میں لڑکی کی انٹری ڈال کر معاملے کو اچھالنے والا شخص ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کا مدعی نکلا ؟ تہلکہ خیز انکشافات پر مبنی تازہ ترین خبر
اسلام آباد(ویب ڈیسک) عبد الوحید ڈوگر کون ہے جس نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف شکایت درج کرائی ؟ آخر کار معمہ حل ہوگیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف مدعی وہی شخص ہے جس نے
نامور صحافی فخر درانی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔صحافی احمد نورانی کے خلاف ان پر 27 اکتوبر 2017 کے حملے کے بعد ’لڑکی کے بھائی‘ کے عنوان سے مشہور جعلی خبر دی تھی۔ ڈوگر اسلام آباد میں قائم ایک خبر ایجنسی کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ دی نیوز کو دستیاب دو قابل احترام ججوں کے خلاف ریفرنسز کی نقول کے مطابق اس نے وزیر اعظم دفتر کے ایسیٹس ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو 10 اپریل 2019 کو شکایت کی اور اس شکایت کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو ریفرنس بھیجا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلہ سنانے کے 10 ہفتوں بعد یہ شکایت درج کرائی گئی تھی۔ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الوحید ڈوگر نے تصدیق کی کہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے ذرائع سے چند معلومات حاصل کرنے کے بعد ججوں کے خلاف شکایت درج کرائی۔ وہ ڈوگر ہی تھے جنہوں نے صحافی احمد نورانی کے خلاف خبر دی جن پر آبپارہ، اسلام آباد کے قریب حملہ کیا گیا تھا اور نورانی شدید زخمی ہوگئے تھے اور ان کے سر پر کئی زخم آئے تھے۔ نورانی بچ گئے۔ حملے کے چار روز بعد 31 اکتوبر 2017 کو ڈوگر نے مقامی اردو اخبار میں ایک خبر دی کہ نورانی پر حملہ لڑکی کے ساتھ تعلقات کے باعث کیا گیا۔ خبر میں لڑکی یا حملہ آوروں کی کوئی تفصیلات نہیں تھیں اور خبر سوشل میڈیا پر ’لڑکی کے بھائی‘ کے عنوان سے مقبول ہوگئی۔ واقعے کی جیو فینسنگ میں عدم تعاون کے باعث
احمد نورانی پر حملے کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں۔ اس وقت ڈوگر کی خبر نے کام کیا ۔ اور تمام تر توجہ مجرمان کو ڈھونڈنے کے بجائے ’لڑکی کے بھائی‘ خبر پر ٹھہر گئی۔ بعد میں جب مٹی چھٹ گئی اور مذکورہ مقامی اخبار سے شواہد کے بارے میں سوال کیا گیا تو ڈوگر اور اس کے ادارے نے احمد نورانی سے معافی مانگ لی اور 8 دسمبر 2017 کو معذرت شائع کردی۔ اب جب دی نیوز نے عبد الوحید سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ انہوں نے خبر کیوں شائع نہ کی اور ججوں کے خلاف درخواست دینے کو ترجیح کیوں دی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے ذرائع سے معلومات حاصل ہوئی ہیں اور جیساکہ خبر کی اشاعت ممکن نہ تھی اس لئے انہوں نے مناسب سمجھا کہ وہ اے آر یو کو درخواست بھیجیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی تحقیقی رپورٹرز کئی کیسز میں فریق بن گئے ہیں اور عدالتوں میں درخواستیں دائر کردی ہیں، میں پہلا شخص نہیں جو کسی کیس میں فریق بنا ہوں، پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے میں پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی چاہتا ہوں، اگر ان اثاثوں کی خریداری کیلئے رقم قانونی ذریعے سے باہر بھیجی گئی ہے تو اسے ثابت کیا جانا چاہئے۔ ڈوگر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ججوں کے خلاف درخواست ثبوت کے ساتھ داخل کی ہے۔ اگرچہ ڈوگر سے ان کے ذرائع ظاہر کرنے کو نہیں کہا گیا، انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ وہ ذرائع ظاہر نہیں کرسکتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ
دی نیوز بھی سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے مختلف تحقیقات کر رہا ہے خصوصاً برطانیہ میں اور مختلف سرکاری محکموں سے دستاویزات حاصل کر رہا ہے تو انہوں نے کس طرح پراپرٹی دستاویزات حاصل کرلیں؟ ڈوگر اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ انہوں نے برطانیہ میں کس ادارے سے یہ دستاویزات حاصل کیں۔ صحافی احمد نورانی کے خلاف ’لڑکی کے بھائی‘ خبر کے حوالے سے سوال پر ڈوگر کا کہنا تھا کہ کشمیر ہائی وے پر ایک چیک پوسٹ پر تعینات پولیس جوان نے انہیں اطلاع دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں انہوں نے ان اطلاعات کی تصدیق کی اور خبر فائل کردی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کونسی اطلاعات کی تصدیق کی تو ڈوگر نے جواب دیا کہ پولیس جوان نے انہیں بتایا کہ نورانی پر موٹر سائیکل پر سوار دو افراد اور ایک کار سوار نے حملہ کیا جبکہ نورانی کا کہنا تھا کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ ڈوگر کا کہنا تھا کہ نورانی نے کار کا تذکرہ پتہ نہیں کیوں نہیں کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس بس یہی ثبوت تھا کہ لڑکی کی خبر سچی تھی تو ڈوگر کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کی کار کا انکشاف اسٹیٹمنٹس میں کیوں نہیں کیا گیا۔ ڈوگر کا کہنا تھا کہ وہ تیسرے جج کے خلاف ریفرنس پر تبصرہ نہیں کریں گےاور ان دو ججوں کے خلاف ریفرنس پر مزید تبصرہ نہیں کریں گے۔(ش س م)