When Wazir E Azam In Bath Tub
Posted By: Kabir on 09-06-2019 | 03:27:24Category: Political Videos, News’’جب وزیراعظم باتھ روم کے ٹب میں تھے تو ایک خاتون انکے پاس گئی اور ۔۔۔۔‘‘ پاکستان کے معروف فائیو سٹار ہوٹل نے زمین حاصل کرنے کے لیے کیا حربہ استعمال کیا؟ ایاز میر کا تہلکہ خیز انکشاف
چکوال (ویب ڈیسک)سینئر صحافی ایاز سلیم نے انکشاف کیا ہے کہ صدرالدین گانجی کراچی کے شریٹن ہوٹل کے مالک تھے جو اب بھی اُس شہر کا سب سے بڑا ہوٹل ہے، انہوں نے حکومت کویت کی پارٹنرشپ سے یہ ہوٹل بنایا تھا اور پیسہ دیگر ذرائع کے علاوہ پاکستانی بینکوں سے بھی لیا تھا لیکن جرمنی کے فرینکفرٹ
ائیرپورٹ پر ہیروئن کے ایک سوٹ کیس کے ساتھ پکڑے گئےتھے۔سینئر کالم نویس ایاز امیر نے روزنامہ دنیا کے لیے لکھا کہ ’’ جرمنی میں کیس چلا اور سزا ہوئی، اس کے بعد پاکستان آئے تو مجھے ایک دن فون آیا اور دوسری طرف سے آواز آئی کہ وہ صدرالدین گانجی بول رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اکثر اپنے گاؤں بھگوال ہوتا ہوں تو اُنہوں نے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں وہ وہاں آ جائیں گے۔ صدرالدین گانجی وہاں تشریف لائےاور انہوں نے اپنی کہانی سُنائی اور بتایا کہ شریٹن کی زمین کون سے سرکاری ذرائع استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے حاصل کی تھی۔ ساتھ کچھ زمین تھی جو حکومتِ سندھ کی ملکیت تھی۔ وہ بھی اُنہیں درکار تھی اور اُس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفی جتوئی تھے۔ وہ لائن پہ آ نہیں رہے تھے اور صدرالدین صاحب کا کام نہیں بن پا رہا تھا۔ لیکن پھر اُنہوں نے مشہورِ زمانہ حُسنہ شیخ صاحبہ سے مدد مانگی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ حُسنہ شیخ کون تھیں۔ وہ ایک سابق وزیر اعظم کی نہ صرف تیسری بیوی تھیں بلکہ اُن کی زندگی…مدعا بیان کرنے کیلئے مناسب الفاظ نہیں… کی محبت، وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں The love of his life۔ میری حُسنہ شیخ صاحبہ سے ایک آدھ ملاقات بہت بعد میں اسلام آباد میں ہوئی اور کہنا پڑے گا کہ وہ بہت دل پذیر شخصیت رکھنے والی خاتون تھیں۔بہرحال صدرالدین نے حُسنہ شیخ سے کہا، اس نے آگے سابق وزیر اعظم سے۔ صدرالدین کے الفاظ یہ تھے کہ جب وہ سابق وزیر اعظم غسل کے ٹب میں
تھے، پانی کا ٹمپریچر بالکل اُن کی مرضی کے مطابق تھا، اور ٹب کے ساتھ ہی پتہ نہیں گلاس میں کون سا مشروب… یعنی جب وہ صاحب صحیح موڈ میں تھے تو عین اُس وقت صدرالدین گانجی کی درخواست بذریعہ پیغامبرِ خاص اُن کے کانوں میں پہنچائی گئی۔ اُنہوں نے کیا دیر کرنا تھی۔ غسل کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ جتوئی صاحب کو فون ہوا اور پھر کام نے ہونا ہی تھا۔ صدرالدین کا یہ ساری کہانی بیان کرنے کا مقصد مجھے یہ بتانا تھا کہ ہماری مملکت ہے کیسی اور یہاں پہ کام کیسے ہوتے ہیں، یہاں کوئی قانون یا ضابطہ نامی چیزیں نہیں چلتیں، بس ایسے ہی کام ہوتے ہیں‘‘۔مزید لکھا کہ ’’اُنہوں نے ایک اور قصہ سنایا کہ شریٹن کیلئے جو بینکوں سے قرض لیے گئے تھے‘ اُن کی واپسی میں دیر ہو رہی تھی اور صدرالدین گانجی ڈیفالٹر بن رہے تھے، بینک والے رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھے اور معاملہ گانجی صاحب کا بیچ میں پھنسا ہوا تھا، ایک دن بڑے بینک والوں کا اجلاس ہونا تھا۔ صدرالدین کو ایک ترکیب سُوجھی۔ شریٹن کا اندرونی تزئین و آرائش کا کام ایک مصری کو سونپا گیا تھا‘ جو تب کراچی میں موجود تھا۔صدرالدین نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے پاس اپنا عبایا ہے، یعنی وہ لباس جو عربی پہنتے ہیں۔ گلف اور سعودیہ کے عرب تو روزمرّہ زندگی میں عبایا کا استعمال کرتے ہیں لیکن مصر میں مڈل کلاس اور اوپر کے لوگ عبایا کو بطور نائٹ سوٹ، یعنی رات کے کپڑوں، کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مصری نے کہا: میرے پاس عبایا ہے پر میں رات کو پہنتا ہوں۔ صدرالدین نے کہا کہ تم پہن آؤ اور میرے ساتھ چلو۔ وہ اُس بلڈنگ میں گئے جہاں بینکروں کا اجلاس ہو رہا تھا۔ صدرالدین نے کہا کہ میں تمہیں دروازے کے اندر دھکیل دوں گا، تم نے اور کچھ نہیں کرنا صرف شدید غصے کے عالم میں عربی میں بولنا ہے اور کہنا ہے کہ میرا تعلق کویت سے ہے اور یہ کیا ہے کہ ہمارے شریٹن ہوٹل کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ صدرالدین نے بتایا کہ ایسا ہی ہوا۔ مصری کمرے میں داخل ہوتے ہی بینکروں پہ عربی میں چلاتے ہوئے چڑھ گیا۔ بینکر‘ جو اپنے اپنے بینک کے سربراہ تھے‘ دم بخود رہ گئے۔ اُنہوں نے کہا: سر آپ ٹھنڈے ہو جائیں، ذرا بات سُنیں لیکن وہ عربی میں چڑھائی کرتا رہا۔ قصہ مختصر کہ شریٹن ہوٹل کو جو ریلیف مطلوب تھا وہ فوراً مل گیا۔ صدرالدین نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگوں کی اصلی اوقات یہ ہے‘‘۔