Inhein Ghar Bhejien Ge Toh Khan Nakaam Hoga
Posted By: Joshi on 20-05-2019 | 05:18:50Category: Political Videos, Newsانہیں گھر بھیجیں گے تو کپتان ناکام ہو گا ۔۔۔۔۔اسد عمر اور مشیر وزیراعلیٰ پنجاب اکرم چوہدری کی چھٹی کروانے کے پیچھے دراصل کس کا ہاتھ ہے ؟ باخبر صحافی کی پکی خبر
لاہور (ویب ڈیسک) کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ روا ہوتا ہے۔ اب محبت کی جگہ ’’سیاست‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے تو پاکستان کی حد تک کہاوت کو پہلے کی طرح دہرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اقتدار کی جنگ میں سب کچھ ہو رہا ہے۔ طرفین ہر طرح کے دائو پیچ
نامور کالم نگار بیدار سرمدی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔استعمال کر رہے ہیں۔ جوڑ توڑ بلیک منی کا استعمال، اندرنی اور بیرونی طاقتوں کے دبائو، غرض پرتر فضا میں ہے۔ ایسے میں ایک کھیل میں مہارت اور حب الوطنی کے جذبات کو ایک ساتھ استعمال کر کے عالمی اعزاز حاصل کرنے والے عمران خان سے ان کے چاہنے والوں کو ہمیشہ امید رہی ہے کہ وہ اپنی سکیم کی ایک طرف کارکردگی پر واردات نہ کرنے پائیں کہ ان کی ٹیم کا کوئی کھلاڑی بددل ہو جائے یا کسی کا دائو اس طرح موثرہو جائے کہ خان اپنے کسی مخلص رکن کی خدمات سے محروم ہو جائیں۔ حکومت کے جانے سے اس شعبے میں خان کی ٹیم ابھی تک تبصروں اور دبائو کا شکار ہے۔ اب پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کابینہ کے ایک ایسے رکن کو مستعفی ہونا پڑا ہے جو صلاحیتوں اور عملی کارکردگی کے حوالے سے وزیراعلیٰ اور خاص طور پر تحریک انصاف کے بازوئے شمشیرزن تھے۔ سادگی پسند، عوامی رابطوں میں پیش پیش، دلائل کے ساتھ حکومت کو تسلیم کروانے کے حوالے سے چوہدری اکرم بہت زیادہ متحرک تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک صاحب نظر منظم اعلیٰ کے طور پر ان کو ایسا شعبہ دیا تھا جس میں کام کرنا آسان نہیں ہوتا یہ شعبہ تھا مارکیٹ کے بازاروں کے اندر قیمتوں کے حوالے سے مثالی ماحول بحال رکھنا۔ جمہوری معاشرے میں کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامیکا ایک بڑا سبب اشائے خوردونوش کی بہتر معیار کے ساتھ مناسب قیمتوں پر فراہمی سے جڑا ہوتا ہے۔
صارفین اور تاجر اس سسٹم کے اہم فریق ہوتے ہیں اور دونوں جمہور کی انتخابی عمل کا حصہ ہونے کے باعث حکمران جماعت کی ضرورت ہوتے ہیں۔ عام طور پر بڑے تاجروں میں ہی کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں اور یہی مافیا کسی بھی حکومت کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ چوہدری اکرم نے اس چیلنج کو قبول کیا۔انہوں نے رات دن پارٹی کی خدمت میں اور منڈیوں، مارکیٹوں اور بازاروں میں گزارا۔ ان کے لئے ایسا کرنا شاہد ان کی فطرت کے قریب تھا۔ عمران خان نے جب 25 اپریل 1999ء کو تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو 2001ء تک وہ تحریک انصاف کے ترجمان رہے۔ میڈیا میں ان کا وسیع حلقہ احباب ہمیشہ پارٹی کی سوچ کی پروموشن کے لئے متحرک رہا۔ وہ کچھ عرصہ مسلم لیگ ق میں رہے تو اس جماعت کے سیکرٹری انفارمیشن بنائے گئے۔ اگست 2018ء سے مئی 2019ء کے وسط تک انہوں نے تحریک انصاف کی پنجاب حکومت میں سیاسی مشیر کی حیثیت سے گزارا۔ پارٹی کے اور حکومت کے سربراہ عمران خان نے ان کو پنجاب حکومت میں مشیر کی حیثیت سے ذمہ داری بھی ان کے بے داغ ماضی اور بہترین پارٹی کارکن کی شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے دی تھی۔ پورا میڈیا گواہ ہے کہ اکرم چوہدری نے توقع سے بڑھ کر کام کیا۔وہ وزیراعلیٰ کے مخلص سیاسی مشیر اور ساتھی ثابت ہوئے۔ خود اکرم چوہدری نے جو ایک بڑے بزنس میں ذمہ دار تجزیہ کار، سینئر کالم نگار اور شائستہ لب و لہجے والے سیاستدان ہیں، اپنے کالم ’’مائی لارڈ استعفی حاضر ہے‘‘ میں اپنا سینہ کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہم سمجھتے کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کا سامنا ایک پر اعتماد ٹیم ہی کر سکتی ہے۔ ایسے فیصلوں سے جو اسد عمر اور اکرم چوہدری کے حوالے سے کئے گئے ہیں کپتان کی ٹیم کا مورال ڈائون ہو سکتا ہے۔ یقینی طور پر یہ فیصلے عمران خان یا عثمان بزدار کے نہیں ہیں۔ یقینی طور پر یہ کسی باہر کے دبائو کے باعث ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار عوام کے اعتماد کے ساتھ ایک عوام دوست حکومت کے تاثر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں اپنے مخلص ساتھیوں کو امتحان میں ڈالنے کی بجائے انہیں بیوروکریسی کے اُس مختصر سے ٹولے کا محاکمہ کرنا چاہیے جو حالات بگاڑ رہا ہے، مہنگائی کی بنیادیں رکھ رہا ہے اور عملی طور پر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی ٹیم کو کام نہیں کرنے دے رہا۔ محبت اور سیاست کی جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ کپتان کو دیکھنا ہو گا کہ اس کہاوت پر عمل کرنے والی مخالف قوتوں کا توڑ کیا ہے؟ اور مخلص ساتھیوں کی صلاحیتوں سے کیسے کام لینا ہے؟(ش س م)