Padosi Mulak Mein Khudkash Hamla
Posted By: Akbar on 09-10-2018 | 09:36:09Category: Political Videos, Newsہلمند (ویب ڈیسک)افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران خود کش حملے کے نتیجے میں انتخابی امیدوار سمیت 8 افراد جاںبحق ہو گئے۔صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور دہشت گردوں کو انتخابی عمل کو روکنے نہیں دیں گے۔
صوبہ ہلمند کے گورنر کے ترجمان عمر زھاک نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آور نے افغانستان کے جنوبی شہر لشکر گاہ میں صالح محمد آسکزئی کی انتخابی مہم کے دفتر میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے۔نوجوان صالح نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا تھا اور انہوں نے الیکشن کے دوران ‘مثبت تبدیلی’ کا نعرہ لگایا تھا۔ابھی تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن 2001 میں امریکا کی افغانستان پر فوج کشی کے بعد ہلمند طالبان کا اہم مرکز رہا ہے اور ممکنہ طور پر طالبان ہی اس حملے میں ملوث ہوسکتے ہیں۔صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور دہشت گردوں کو انتخابی عمل کو روکنے نہیں دیں گے۔یاد رہے کہ ایک دن قبل ہی طالبان نے انتخابات کو ‘بوگس’ عمل قرار دیتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور امیدواروں کو خبردار کیا تھا وہ اس سے دور رہیں۔
طالبان نے ان انتخابات کو ‘امریکی سازش’ قرار دیتے ہوئے ووٹرز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ شدت پسند انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔یاد رہے کہ 28ستمبر سے انتخابی مہم شروع ہونے کے بعد سے یہ اس مہم پر دوسرا حملہ ہے جہاں اس سے قبل گزشتہ ہفتے دو اکتوبر کو صوبہ ننگر ہار میں ریلی پر حملے کے نتیجے میں 13افراد ہلاک اور 40سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔مذکورہ حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی جس میں خوش قسمتی سے انتخابی امیدوار بچ گئے تھے۔20اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں ڈھائی ہزار سے زائد امیدوار حصہ لیں گے لیکن انتخابات کے قریب آتے ہی ہر گزرتے دن کے ساتھ پرتشدد واقعات کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔آئندہ سال ہونے والے صدارت یانتخاب سے قبل یہ پارلیمانی انتخابات ایک بہت بڑا امتحان ہیں اور گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے حملوں کے بعد یہ بحث بھی جنم لے چکی ہے کہ ایسی صورتحال میں انتخابات ہونے چاہئیں یا نہیں۔
افغانستان کے پارلیمانی انتخابات پہلے ہی تین سال تاخیر سے منعقد ہو رہے ہیں اور بیورو کریسی کی نااہلی، انڈسٹریل سطح پر فراڈ اور عین موقع پر ووٹرز کی بائیو میٹرک تصدیق کے مطالبے سامنے آنے کے بعد انتخابی عمل کے ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار اور پٹڑی سے اترنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔الیکشن کے دن 5ہزار پولنگ اسٹیشنز پر افغانستان سیکیورٹی فورسز کے 54ہزار اراکین خدمات سرانجام دیں گے لیکن طالبان اور داعش کے بڑھتے حملوں کو دیکھتے ہوئے انتخابات کو محفوظ بنانے کے حوالے سے ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان موجود ہے۔