Top Rated Posts ....
Search

Jis Qaum Ne Aurton Ko Zaroorat Se Zayaada Azadi Di

Posted By: Ahmed on 05-10-2018 | 19:20:39Category: Political Videos, News


لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب میں وکلاء کے نمائندہ ادارے پنجاب بار کونسل کی جانب سے شائع کروائی گئی سال 2018 کی ڈائری پر ایک ایسا جملہ بھی چھپا ہے جس نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی ہے اور اس پر طرح طرح سے تبصرے ہونے لگے ہیں، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وکلا کے نمائندہ ادارے پنجاب بار کونسل کی طرف سے سالانہ شائع کی جانے والی سنہ 2018 کی ڈائری میں درج ہے کہ جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر پشیمان ضرور ہوئی ۔ ۔۔۔خواتین سے متعلق ان اقوال کی تصاویر حال ہی میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سامنے آئیں۔ ٹوئٹر پر اس حوالے سے کی جانے والی بحث میں زیادہ تر لوگ ان اقوال کو ’صنفی امتیاز‘ قرار دے رہے ہیں جس پر پنجاب بار کونسل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا آئینی معاملات کے ماہر وکیل حسن نیازی نے مذکورہ قول کی تصویر ٹویٹ کرنے کے ساتھ لکھا: ’یہ پنجاب بار کونسل کی ڈائری میں سے ہے اور یہ اس صنفی امتیاز اور عورت کے خلاف منافرت کو ظاہر کرتا ہے جس کا پاکستان میں خواتین وکلا کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’ایسے تمام اقوال کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔ ان ہی کے ٹویٹ کو مزید کئی افراد نے آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب بار کونسل کو مزید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خواتین کے حقوق کے کئی اداروں کی جانب سے بھی پنجاب بار کونسل کو اس حوالے سے خط لکھے گئے ہیں۔
پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے اس حوالے سے کہا کہ اس قول کے شائع کرنے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ ’قوم صرف مرد ہیں اور عورت کو آزادی دینے کا حق صرف مردوں کا ہے، اور کتنی آزادی دینی ہے اس کا تعین بھی وہی کریں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ’ہماری وکلا برادری نے برابری کے بنیادی انسانی حق کے بارے میں نہیں سوچا ۔ فوزیہ وقار کا کہنا تھا کہ پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن اس حوالے سے پنجاب بار کونسل کو ایک خط بھی لکھ رہا ہے جس میں ان سے وضاحت طلب کی جائے گی ۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی چیئرپرسن بشریٰ قمر کا کہنا تھا کہ معاملہ ان کے علم میں لایا گیا ہے۔ انھیں اس حوالے سے ای میل بھی موصول ہوئی ہیں، جس پر انھوں نے اقدامات بھی کیے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’کلیریکل غلطی ہو سکتی ہے اور ان کا ادارہ دانستہ ایسا نہیں کر سکتا ۔ہم نے فوری طور پر اس قول کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیا ہے اور ہماری اشاعت کی پروف ریڈنگ کے ذمہ دار شخص کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔‘

تاہم لاہور میں کام کرنے والی خواتین وکلا سمجھتی ہیں کہ ایسے اقوال واضح طور پر امتیازی ہیں۔ ہائی کورٹ کی وکیل ربیعہ باجوہ کا کہنا تھا کہ ایک نمائندہ ادارہ ہونے کے ناطے پنجاب بار کونسل کو ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وکالت کے پیشے میں سب برابر ہیں، کوئی مرد یا عورت نہیں ہے۔ مگر یہ قول ظاہر کرتا ہے کہ حقیقتاٌ ایسا نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ایسی چیزیں امتیازی ہوتی ہیں اور وہ یہ توقع نہیں کر رہی تھیں کہ ان کے نمائندہ ادارے کی جانب سے یہ سامنے آئیں گی ۔ پنجاب بار کونسل میں ایک پانچ رکنی پبلیکیشن کمیٹی ہے جو ادارے کی اشاعت کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ ڈائری میں سامنے آنے والا یہ محض ایک ہی قول نہیں، خواتین کے حوالے سے مزید اقوال بھی مختلف صفحات پر پائے گئے ہیں ۔ ٹوئٹر استعمال کرنے والے ایک صارف حیدر امتیاز نے ڈائری کے دسمبر کے مہینے سے ایک صفحہ لگایا جس پر یہ قول درج تھا کہ ’عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہے مگر عورت کے بغیر زندگی بسر کرنا اور بھی مشکل ہے ۔ ایک اور صارف ندا عثمان چوہدری نے سنہ 2018 جنوری کے ایک صفحے کی تصویر لگائی جس پر درج ہے کہ ’ماں کو بچے سے محبت ہے اور جس ماں کا کوئی بچہ نہیں اسے بھی اپنے بچے سے محبت ہے۔‘

Comments...
Advertisement


Follow on Twitter

Popular Posts
Your feedback is important for us, contact us for any queries.