Bhasha Dam Keliye....Buzurgon Ne Hadiyaan....
Posted By: Mangu on 02-10-2018 | 07:57:05Category: Political Videos, Newsاسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیم بننے سے بہت پہلے ہی اس علاقے کے لوگ در بدر ہو گئے ہیں۔سفید ریش عظیم اللہ کا کہنا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم میں لوگوں نے ایک دو دن کی تنخواہ عطیے میں دی ہے، لیکن ہم نے اپنے بزرگوں کی ہڈیاں تک قربان کر دی ہیں۔ہم ڈیم بننے سے بہت پہلے ہی اپنے علاقے سے دربدر ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں اور چند برسوں کے اندر اندر گاؤں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ رپورٹس میں مزید بتایا گیا ہے کہ عظیم اللہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی وادیِ کھنبری کے رہنے والے ہیں۔ وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں، اس لیے خود بھی زور سے بولتے ہیں۔ابھی ڈیم بننے کے لیےچندہ اکھٹا کیا جا رہا ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کہ آخر کب تک ڈیم کے لیے مقررہ رقم پوری ہو گی۔ لیکن اس علاقے کے لوگ ڈیم بننے سے بہت عرصہ پہلے ہی بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایک اور شہری جن کا تعلق سونےوال برداری سے ہے وہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں لیکن وہ کہتےہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ علاقے کے آبائی باشندوں کی بڑی تعداد انھیں آج تک غیرمقامی اور باہر والا سمجھتی ہے۔ اسی لیے جب دیامر بھاشا ڈیم کے زمین حاصل کی گئی تو ان لوگوں کو بھی پیسے ملے، جس سے شین اور یاشکین نامی برتر سمجھے جانے والے
قبائل کو بڑی کوفت ہوئی۔ ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ سب نہیں لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جن کی وجہ سے ہم پر زمین تنگ ہو گئی۔ہم نے سوچا کہ ان لوگوں سے لڑائی دشمنی نہیں کی جا سکتی، چار سال بعد بھی جانا ہے تو بہتر یہی ہے کہ ابھی سے علاقہ چھوڑ دیا جائے کچھ لوگ علاقہ چھوڑ کر ان میں کچھ لوگ ضلع مانسہرہ میں جا بسے، کچھ نے گلگت کا رخ کیا، بعض قریبی قصبے چلاس میں جا کر رہنے لگے اور یوں نہ صرف خاندان تقسیم ہو گئے بلکہ پوری برادری تتر بتر ہو کر رہ گئی۔ جبکہ ضلع دیامر کے کمشنر سید عبدالوحید شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کچھ لوگ تو اپنی خوشی سے گئے ہیں لیکن کچھ ایسے ہیں ان کے ساتھ پیسے کے لین دین کا مسئلہ تھا کیوں کہ یہ لوگ جہاں آباد ہیں اس زمین پر دوسرے قبیلے کا دعویٰ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے اور یے چلاس کے قریب ہرپن داس کے علاقے میں 2083 کنال زمین مختص کر رکھی ہے، جہاں انھیں ایک ایک کنال کے پلاٹ دیے جائیں گے۔’