Poore Pakistan Mein Kaala....Dam
Posted By: Abid on 19-09-2018 | 20:32:59Category: Political Videos, Newsپورے پاکستان میں کالا باغ ڈیم کے مخالفین کی کل تعداد کیا ہے ؟ صف اول کے کالم نگار نے اعداد شمار پیش کرکے عمران خان کو شاندار مشورہ بھی دے دیا
لاہور (ویب ڈیسک) کالا باغ ڈیم کی متنازعہ جڑیں کے پی اور سندھ میں پائی جاتی ہیں۔ کے پی میں کالا باغ کے مخالفین کو اسکی تعمیر کی صورت میں اپنا صوبہ ڈوبتا جبکہ سندھ قحط سے دوچار ہوتانظر آتا ہے۔ دونوں صوبوں کے کالا باغ کے مخالفین کو ملا لیا جائے،
نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔تو انکی کل تعداد ان دونوں صوبوں کے کسی بھی ایک قومی اسمبلی کے حلقے کے ووٹرز سے زیادہ نہیں بنتی۔ یہ چونکہ بھارت کے ڈھول کی تھاپ اورنوٹوں کی بوچھاڑ میں بے خود ہو کر ناچ رہے ہوتے ہیں اس لئے دیکھنے والوں کو پیالی طوفان طوفان نظر آتا ہے۔ کالا باغ کی مخالفت میں جب کبھی مظاہرے ہوئے شرکاء کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کے کارکنوں کی‘ جنہوں نے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شاہراہیں بند کر کے شہروں کے رابطے ختم کر دئیے۔ دو دو تین تین سو کی تعداد میں یہ لوگ سڑکوں پر بیٹھ گئے۔ اس ’’نوبل کاز‘‘ کیلئے کل دو اڑھائی ہزار جوشیلے کارکن کافی تھے انہوں نے شام کو تھک ہار کر لنگر خانوں کا رخ کر لیا۔مسلم لیگ اور تحریک انصاف کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی حامی مگر سیاسی مفادات کو قربان کرنے سے خوفزدہ ہیں حالانکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سیاسی مفادات کیلئے قطعی ضرر رساں نہیں بلکہ یہ اس پارٹی کی سیاسی مضبوطی اور استحکام کا سبب بنے گی جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا مشن لے کر بے خوف و خطر ہو کر اٹھے گی۔ کے پی میں کالا باغ ڈیم کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو اے این پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں اور تحریک انصاف مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کی طرح یوسفِ بے کارواں ہوتی۔
پیپلزپارٹی اجتماعی طور پر کالا باغ ڈیم کی حامی ہے نہ مخالف، اس کا حمایت یا مخالفت پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ سندھ میں قومیت پرستوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے کچھ لیڈر مخالفت کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے سندھ میں مخالفت کی باتیں پرانی ہیں۔ اس دور میں بھی جب قومیت پرست کالا باغ ڈیم کی مخالفت پلٹ کر جھپٹنے کے انداز میں کرتے تھے۔ مسلم لیگ نے سندھ میں کامیابی حاصل کر کے حکومتیں بنائیں۔ آج بھی تحریک انصاف سندھ میں دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے جو مسلم لیگ ن کی طرح کالا باغ ڈیم کی حامی ہے۔ گو سندھ میں جا کر دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کو کالا باغ ڈیم کا نام لیتے ہوئے مرگی پڑتی ہے۔ یہ انکے اندر کا خوف ہے۔ جمہوریت میں فیصلے اکثریتی رائے سے ہوتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے حامیوں اور مخالفین کی تعداد کا اندازہ ریفرنڈم سے ہو سکتا ہے۔ ریفرنڈم کا نام سن کر مخالفین پر طاعون زدگی طاری ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ انہیں کالا باغ ڈیم کے حامیوں نے بگڑا بچہ بنا دیا ہے جو چھت پر چڑھ کر ماں کو کہتا ہے‘ چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ ماں پتر کی بلیک میلنگ میں آجاتی۔
آخر تنگ آکر ایک دن دل پر جبر کر کے کہا مار دے چھلانگ، یہ سن کر بچہ آرام سے چھت سے نیچے اتر آیا۔کل جو کہتے تھے کالا باغ ڈیم پر بریفنگ نہیں سنیں گے، اس کا نام بھی ہمارے سامنے نہ لیں ۔آج چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ڈیموں کی مخالفت پر آرٹیکل 6 لگانے کا عندیہ دینے کے بعد لب سی چکے ہیں۔ اس میں طعنے والی کوئی بات نہیں۔ یہ انکی مہربانی ہے کہ قوم کی آواز میں اگر آواز نہیں ملا سکتے تو خاموشی اختیار کر لیں۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے عزم و ارادہ لے کر اٹھے، جنرل پرویز مشرف بھی اپنے دور کے آخر میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے کمٹڈ تھے مگر وہ کچھ سیاستدانوں کی چال اور چکمے میں آگئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس ڈیم کی تعمیر کیلئے کوئی راہ نکالنے کی کوشش کی تو مخالفین کی دُم کو آگ گئی، انکی پیالی میں طوفان کو ایک بار پھر بھارتی سپانسرڈ میڈیا نے طوفان بلاخیز اور قوم میں وسیع پیمانے پر ہیجان بنا کر پیش کیا۔ مجبوراً چیف جسٹس جو مستقبل میں ملک کو درپیش پانی کی کمی میں شدت کا احساس کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے، انہوں نے پاکستان کے اندر غیر متنازعہ ڈیمز کی تفصیلات ملاحظہ کیں تو ،
بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر ممکن دکھائی دی۔ انہوں نے ان دو ڈیموں کی تعمیر کے احکامات جاری کئے۔ ترجیح بھاشا ڈیم کو دی گئی مگر حکومت کے پاس فنڈز نہیں تھے۔ ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک بھارت کے واویلا پر فنڈنگ سے انکار کر چکا تھا۔ چنانچہ تعمیر کیلئے پاکستانیوں سے رجوع کیا گیا۔کالا باغ ڈیم کی مخالفت کچھ لوگ ڈوب کر اور کچھ قحط سے مرنے کے جواز بلاجواز کی بنا پرکر رہے تھے۔ بھاشا ڈیم کی مخالفت کرنیوالے بدباطنوں کو فنڈنگ پر اعتراضات ہونے لگے۔ آپ فنڈ نہ دیں۔ دھن دولت سے سونے کے تابوت خریدیں، زندگی ہی میں ہیرے جواہرات کی قبر تعمیر کرا لیں۔ فنڈ دینا نہ دینا ہر کسی کی صوابدید ہے مگر فنڈنگ کیخلاف مہم کیا حب الوطنی ہے؟ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیخلاف متوازی مہم چل رہی ہے۔ اُدھر بھارت میں عالمی سطح پر پھر پراپیگنڈہ زوروں پر ہے اِدھر ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ خیرنہیں کر رہے۔ لگتا ہے کہ بھارت اس کارخیر میں پاکستان میں بھاشا ڈیم کے مخالفین کے ایجنڈے کو سپورٹ کر رہا ہے۔ اسی طرح کالا باغ ڈیم کے مخالفین کے سر پر دست شفقت رکھ کر اور مٹھی گرم کر کے کرتا آرہا ہے۔ اپنے اعمال اور کردار سے ہم نے خود کو اپنا دشمن ثابت کیا ہے۔
سیاسی مفادات پر قومی مفادات کو قربان کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔بھاشا ڈیم کی مخالفت بے کنار اور حدوں سے پار ہوئی تو چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ ڈیموں کے مخالفین پر آرٹیکل 6 لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ہم مخالف ہیں، ہم پر آرٹیکل 6 لگائیں۔ ان کا شوق پورا کر دینا چاہئے۔کل تک کالا باغ ڈیم متنازعہ اور اسکی تعمیر ناممکن نظر آتی تھی۔ آج چیف جسٹس کے آرٹیکل 6 کی بات کرنے پر ایک سناٹا ہے۔ اب چیف جسٹس کی کمٹمنٹ سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر یقینی نظر آتی ہے۔ قوم فراخدلی سے فنڈ دے رہی ہے اور آئے روز چیف جسٹس کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے والوں کی تعداد میں معتدبہ اضافہ ہو رہا ہے۔گذشتہ روز سابق چیف جسٹس پاکستان جناب ارشاد حسن خان نے 4 لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔ قیوم نظامی صاحب نے 40 ہزار روپے ڈیم فنڈ میں دیئے ۔ ارشاد حسن خان کا فنڈ میں 4 لاکھ کا عطیہ سابق اور موجودہ جج صاحبان کیلئے انسپریشن ہو گی۔ کل تک میاں ثاقب نثار لگتا تھا خود ہی قافلہ اور خود ہی سالار ہیں۔ ارشاد حسن خان کی طرف سے انکے شانہ بشانہ ہونے سے ایک اور ایک گیارہ ہو گئے ۔ اب کارواں بڑھتا جا رہا ہے۔ میر کارواں اسے منزل پر لے جانے کا عزم کئے ہوئے ہے ۔ حکومت انکے ساتھ مضبوط قدموں پر کھڑی ہے۔ ان کو فوج کی بھی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ اب امید لگی ہے کہ کالا باغ ڈیم اسی حکومت کی مدت کے دوران پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے ۔کالا باغ ڈیم پر کالی سوچ پسپا ہوتی روز روشن کی طرح نظر آرہی ہے ، رکاوٹیں ڈالنے والے اپنا کام کرتے رہتے ہیں مگر اب وہ اپنا کام نہیں کر سکیں گے کیونکہ میاں ثاقب نثار نے آرٹیکل 6 کا پتھر ہاتھ میں پکڑ لیا ہے۔(س)