KPK Awaam Ne Maulana....Ki Jholi Mein...
Posted By: Abid on 18-09-2018 | 20:22:33Category: Political Videos, Newsپختون عوام نے مولانا فضل الرحمٰن کی جھولی میں چھید کیوں کر دیے ؟ الیکشن کے کئی ہفتے بعد نامور صحافی نے شاندار بات کہہ ڈالی
لاہور (ویب ڈیسک) بھلا عمران خان کیوں دوسرے سیاستدانوں سے ’’منفرد‘‘ اور اخلاقی طورپر ’’بالادست‘‘ ہے؟ کہ اس نے توآتے ہی ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ کو اعلانیہ طورپر اپنا لیا‘ اسے اپنا سیاسی ہتھیار بھی بنا لیا‘ اس کی یہ ’’انفرادیت‘‘ تاحال قائم ہے۔ دوسرا انفرادی معاملہ ریاست مدینہ کا بار بار سیاسی تذکرہ ہے۔
نامور کالم نگار محی الدین بن احمد جمال اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ریاست مدینہ محض سخت گیر مذہبی ریاست نہ تھی بلکہ سیاسی و انسانی حقوق‘ اخلاقی اصولوں‘ ضوابط اور ’’تربیت‘‘ کی حامل دنیا بھر میں منفرد نئی ریاست تھی جس میں یہودیوں‘ منافقین نامی‘ قبائل کے ساتھ بھی بطور ریاست منفرد حسن معاملہ کو اپنایا گیا تھا۔ یہ عرب یہودی و منافقین کے قبائل سب یثرب کے ہی اصل باشندے تھے، جبکہ مسیحیت سے حسن تعلق اور حسن معاملہ کا منفرد راستہ تو آپؐ نے مکہ مکرمہ میں ہی اپنا لیا تھا کیونکہ مکہ کے مشرک قبائل ایرانی بادشاہت کے اعلانیہ سیاسی مؤید تھے۔ آپؐ نے اس کے جواب میں رومن مسیحی بادشاہت کا سیاسی مؤید بن کر ’’حنیفی‘‘ دین و شریعت عیسیٰ علیہ السلام کی تائید کرکے دین ابراہیم کی مدد کی تھی جبکہ مکہ مکرمہ کی تاسیس اور بیت اللہ کی تعمیر تومنسوب ہی حضرت ابراہیم و ہاجرہ و اسماعیل علیھم السلام کی ذات اقدس سے ہے غور طلب بات ہے کہ کچھ علماء ’’نظام مصطفی‘‘ کے نعرے کو ہمیشہ ہی اپناتے رہے ہیں مگر عوام نے اس نعرے کو اقتدار دینے کے حوالے سے آج تک قبول ہی نہیں کیا جبکہ عوام نے عملاً تو عمران کے ریاست مدینہ کے حوالے سے اپنائے گئے اخلاقی و معاشی اصولوں،
سیاسی رویوں کے اعلانیہ بیان پر نہ صرف اعتبار کیا بلکہ اسی بھروسے سے اور اعتماد کی بنیاد پر تحریک انصاف کو مکمل اقتدار دیدیا ہے۔ حالانکہ تحریک عملاً سیاسی پارٹی بن ہی نہ سکی تھی بلکہ حصول اقتدار کے ’’ہجوم‘‘ کا نام رہا تھا جس میں انا پرستی اور ’’اندرونی سازشیں‘‘ ایک دوست کے ہی خلاف زیادہ تھیں۔ پارٹی تو یہ آج بھی نہیں ہے بلکہ اقتدار کی شیرینی ‘ حکومت کے شہد‘ سیاسی پہچان کی علامت کے طورپر اس میں شخصی تصادم رکھتی‘ شخصیات کا اجتماع ہے۔ ہاں اب یہ پارٹی بن سکتی ہے کیونکہ حکومتی چھتری جو موجود ہے‘ حیرت اور تعجب ہے کہ صوبہ کے پی میں غیور پختون مسلمانوں نے مولانا فضل الرحمن کے عمران خان پر یہودی ایجنٹ ہونے کے مسلسل ’’الزام‘‘ کو ہرگز قابل غور ہی نہیں سمجھا بلکہ عمران خان ہی کی دوسری حکومت کیلئے اتنے ووٹ دیئے ہیں کہ دوسری پارٹی کی مدد کے بغیر ہی کے پی میں انصاف حکومت بن گئی ہے۔ یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ یہ نعمت عمران کی جھولی میں ڈالتے ہوئے پختون عوام نے ’’مولانا‘‘ کی ’’جھولی‘‘ میں اتنے ’’چھید‘‘ کر دیئے کہ وہ دونوں سیٹوں سے شکست کھا گئے۔ سب سے زیادہ مقام نصیحت و عبرت جماعت اسلامی کا معاملہ ہے کہ پانچ سال عمران کی بدولت اقتدار میں رہے۔
اہم وزارتوں پر موجود رہے۔ سینٹ کی سیٹ تک امیر جماعت اسلامی نے عمران خان کے ووٹوں کی مدد سے حاصل کی مگر ’’ووٹ شہادت‘‘ آنے پر وہ عمران کے شخصی مخالف ’’مولانا منطق‘‘ کے ساتھ ہو لئے؟ اگر عمران خان سے ہی جماعت اسلامی اتحاد میں رہتی یا مفاہمت میں رہتی تو چودھری برادران جتنی نہ سہی کچھ اہمیت تو جماعت اسلامی کو بھی میسرآہی جاتی۔ قوم کے کروڑوں چندہ میں دیئے گئے روپے مسلسل جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمن کی ’’شخصی‘‘ خودغرضی پر مبنی تنگ نظر مذہبی سیاست کیلئے وقف کئے، آج اپنے وجود ہی کو سوالیہ نشان بنا چکی ہے۔ مجھ سے یہ تلخ بات کچھ جماعت کے حقیقی عہدیداروں نے خاموش رابطہ کرکے زوردے کر لکھوائی ہے۔ کہاں وسیع المشرب فکر مودودی کی عظمت اور کہاں مولانا منطق کی ہوس اقتدار کی مسلسل جھلک‘ جونہ جرنیلوں کے عہد میں فوائد سمیٹنا بھولتے ہیں نہ زرداری نہ نوازشریف کی حکومتوں کو لوٹنے میں کمزوری دکھاتے رہے ہیں۔ افسوس جماعت اسلامی اپنے ہی ذاتی حلقہ احباب کے میزان میں مسترد ہورہی ہے۔ اوپر سے آل سعود بھی عمران خان کا مداح ہو گیا ہے۔ کیا سعودی وزیر اطلاعات کی آمد اور سعودی محبت کا بلا تامل عمران خان کی جھولی میں ڈالنا دنیا کو نہیں نظر آتا ہے؟ وہ عہد بیت گیا جب شریف خاندان کی سعودی حکمرانوں میں اہمیت تھی۔
سعودی حکمران اچھی طرح جان گئے ہیں کہ عمران خان پر ریاست لوٹ مار کا ہرگز الزام نہیں اور عوام بھی اس کے ہمرکاب ہیں اور جرنیلوں میں بھی بہت مقبول ہے۔کیا شہبازشریف اور بلاول کو سر جھکا کر عسکری حدود میں وزیراعظم عمران خان کا خطاب سننے پر مجبور نہیں ہونا پڑا؟ کیا سعودی‘ اماراتی اور ایرانی یہ سب کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا حسینہ واجد اور مودی اورٹرمپ یہ سب کچھ نہیں دیکھتے؟ قادیانی پروفیسر عاطف میاں کے حوالے سے پہلے عمران خان علماء کی تنقید کا نشانہ بنے پھر عمران خان نے تدبر و فراست کی روشنی میں میاں عاطف سے معذرت کر لی۔ پرویز رشید میرے بھائی ہیں‘ شاید انہیں معلوم نہیںکہ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے تو 1935ء کے اردگرد مرزائیوںکے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے خطوط ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر اور جواہر لعل نہرو کو لکھے تھے۔ پروفیسر عطاء اللہ کی تالیف جو خطوط اقبال پر مبنی ہے اور اقبال اکیڈمی لاہور سے شائع شدہ ہے‘ میں یہ خطوط موجود ہیں۔ مزید جس بھٹو کے پرویز رشید عاشق تھے‘ اسی بھٹو نے پارلیمانی طورپر طویل بحث کے بعد اور وہ بھی مرزا ناصر کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا پورا موقع دے کر اقلیت ہو جانے کا ماحول دیا تھا۔اگر ظفراللہ خان سچ مچ مسلم لیگ کے ساتھ ’’مخلص‘‘ و وفادار ہوتے تو وہ اپنے ’’مذہبی‘‘ امیر کی خوشی کیلئے گرداس پور کا ضلع بھارتی جھولی میں ڈالنے کی ’’حکمت‘‘ کو کامیاب نہ کراتے اور نہ ہی جناحؒ اقبالؒ اور لیاقت علیؒ کے محبوب ترین مفکر ’’علامہ اسد کو وزارت خارجہ سے ذلیل و خوار کرکے پاکستان کو ’’نابغہ اسد‘‘ سے محروم کرتے مگر یہ فکری اسلامی باتیں پرویز رشید جیسے کامریڈکیلئے شاید اہم نہیں ہیں بلکہ ہم جیسے فقراء اور قلندروں کو محبوب ہیں۔(س)