Nawaz Shrif Ke Dil Ki Khawaahish Poori
Posted By: Abid on 17-09-2018 | 22:20:30Category: Political Videos, Newsنواز شریف کے دل کی خواہش پوری ، اڈیالہ جیل پہنچتے ہی بڑی خوشخبری مل گئی
اسلام آباد(ویب ڈیسک)احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کو ایک دن حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے سماعت (آج ) منگل تک ملتوی کر دی ۔پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نےسماعت کی۔اس موقع پر محمد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سابق وزیراعظم کی آج کی
حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے منظور کرلیا ۔سماعت کے دوران محمدنواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ ‘جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 رجسٹرار سپریم کورٹ کی موجودگی میں سیل کیا گیا یا پہلے لیکردیا گیا تھا’واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ‘آپ ڈیڑھ سال پرانی بات پوچھ رہے، اب مجھے یاد نہیں’۔خواجہ حارث نے سوال کیا کہ ‘کیا آپ کے سامنے والیم 10 سیل ہوا’واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ‘والیم ٹین میرے سامنے سیل کیا گیا، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہسپریم کورٹ میں ریکارڈ پہنچانے سے پہلے والیم ٹین سیل کیا گیا’۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘کسی عدالتی آرڈر شیٹ سے واضح نہیں کہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں والیم ٹین سیل جمع کروایا گیا ہو ۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے جے آئی ٹی رپورٹ کے سربمہر والیم ٹین سے متعلق سوالات پر اعتراض اٹھا یا۔نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے استدعا کی کہ ‘والیم ٹین سپریم کورٹ میں سربمہر صورت میں موجود ہے، خواجہ حارث کو والیم ٹین سے متعلق سوالات کی اجازت نہ دی جائی’۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ‘یہ سوال اب جرح میں طے نہیں کیا جا سکتا، اس سے متعلق الگ پٹیشن دائر کی جا سکتی ہی’۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ”سپریم کورٹ کا وہ آرڈر کہاں ہے جس میں والیم ٹین کو سربمہر کر کے پبلک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہو ‘نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ‘اگر خواجہ صاحب کو والیم 10 نہ ملنے کا اعتراض تھا تو اس کے حصول کی درخواست دیتے، لیکن اب وہ گواہ سے والیم ٹین سے متعلق سوالات نہیں کر سکتی’۔خواجہ حارث نے کہا کہ ‘گواہ نے دوران جرح ایم ایل ایز کا ذکر کیا اور بتایا کہ باہمی قانونی معاونت کے تحت لکھے گئے خطوط سربمہر والیم ٹین میں ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب جرح میں ذکر آ گیا تو اس سے متعلق میرا سوال بنتا ہے اور اگر کوئی چیز میرے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو مجھے اس پر دفاع کا حق حاصل ہے۔جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ‘ایم ایل اے اور سپریم کورٹ کا آرڈر دو مختلف چیزیں ہیں۔اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے سوال کرنے دیں، اگر وہ متعلقہ نہ ہوئے تو آپ حذف کر دینا’۔۔پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ ’24 جولائی 2017 کو والیم 10 بائنڈنگ کی شکل میں سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا’۔خواجہ حارث نے سوال کیا کہ ‘کیا 10 جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعدسپریم کورٹ میں
سماعت فکس ہوئی’اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ‘واجد ضیاء سپریم کورٹ میں اس کارروائی کا حصہ نہیں تھے، لہذا اٴْن سے اس کارروائی سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا’۔واجد ضیاء نے کہا کہ ‘آپ پھر اس سماعت کی تاریخیں بھی پوچھیں گی’۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘میں اس کارروائی کا حصہ نہیں تھا، اتنا زیادہ اس سے متعلق یاد نہیں، میرے علم میں صرف اتنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد سماعت ہوئی’۔خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ ‘آپ اس دوران کسی سماعت میں عدالت میں موجود تھی’۔واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ”میرا نہیں خیال کہ میں 10 تاریخ کے بعد کسی سماعت میں گیا’۔خواجہ حارث نے سوال کیا کہ ‘کیا آپ کے علم میں ہے کہ والیم 10 کی ایک کاپی اس سماعت کے دوران مجھے دکھائی گئی’واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ‘میڈیا پر سنا تھا کہ آپ کو والیم 10 کی کاپی دکھائی گئی’۔اس موقع پر پراسیکیوٹر نیب نے پھر اعتراض کیا کہ ‘واجد ضیاء کہہ چکے ہیں کہ وہ اس سماعت میں نہیں تھے، پھر اس سے متعلق سوال پوچھا جا رہا ہی’۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ”میرا پوائنٹ یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کاپی سیل تھی، لیکن وہ ہمیں دکھائی گئی، کہا گیا تھا کہ آپ کو کاپی چاہیے تو بھلے لے جائیں، لیکن ہم نے کہا تھا کہ ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا، اس لیے والیم 10 کی کاپی واپس کر دی’۔اس موقع پر احتساب عدالت نے نیب کا اعتراض منظور کرتے ہوئے کہا کہ گواہ جس سماعت میں نہیں تھے، اٴْس حوالے سے سوال نہیں پوچھا جاسکتا۔دوراننواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 31 مئی 2017 کو سعودی حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی۔تاہم نیب نے مذکورہ ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی مخالفت کر دی۔جس پر عدالت نے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ بنانے سے متعلق فریقین سے (آج) دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کر دی ۔(م،ش)