Top Rated Posts ....
Search

Chaudhry Nisar Ko Aate Daal Ka Bhaao Maloom Ho Gaya

Posted By: Ahmed on 29-07-2018 | 18:49:18Category: Political Videos, News


چوہدری نثار کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا مگر الیکشن 2018 کا سب سے بڑا یہ اپ سیٹ کیسے ہوا ؟ نامور صحافی نے ساری گیم قوم کے سامنے رکھ دی
لاہور(ویب ڈیسک) جب سے الیکشن کے نتائج آئے ہیں بعض سیاستدانوں کی چہکاریں میں ختم ہو گئی ہیں وہ بھی کیا دن تھے جب وہ ایک چینل اور کبھی دوسرے چینل پر لہک لہک کر گفتگو کر رہے ہوتے، مخالفین کو رگیدنا تو خیر ہر سیاستدان اپنا حق سمجھتا ہے لیکن چوہدری نثار علی خان پورس

نامور کالم نگار قدرت اللہ چودھری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔کے ہاتھیوں کی طرح اپنی ہی فوج کو روند رہے تھے جس کے ٹکٹ پر وہ سات مرتبہ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اگر حکومت بنی تو مرضی کی وزارت لی اور اسے جیسے چاہے چلایا، مخالفوں کی حکومت بنی تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب ان کے حصے میں آیا، لیکن نواز شریف کی وزارت عظمیٰ ختم ہوئی تو انہوں نے قیادت کے ساتھ فاصلے پیدا کرنا شروع کر دیئے ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں تو نہیں کہ پارٹی میں ان کے مخالفین اس صورتحال کے کس حد تک ذمے دار تھے لیکن معاملہ منیر نیازی کے اس شعر سے ملتا جلتا تھا ’’کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن میں بہت سے لوگ چودھری نثار کی چودہراہٹ کے خلاف تھے لیکن جب وہ کابینہ میں تھے تو بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ان کی سلام دعا بھی نہیں تھی یا تو ان کو وہ اپنے مقام و مرتبے سے ہٹیا تصور کرتے تھے یا ممکن ہے مخالفین ہی انہیں پسند نہ کرتے ہوں وجہ کچھ بھی ہو، امر واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنے ڈھب کے آدمی تھے، جو چاہا کہہ دیا، جس انداز میں پسند کیا مخالفین کو کھری کھری سنا دیں

نواز شریف کی حکومت سے علیحدگی کے بعد وہ اپنی گفتگو میں ذرا زیادہ ہی بیباک ہو گئے تھے، پارٹی کے بہت سے رہنماؤں نے قیادت کے ساتھ ان کے فاصلے کم کرانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی، الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آیا تو انہوں نے درخواست ہی نہیں دی اور موقف یہ اپنایا کہ ان جیسے سینئر ترین مقام و مرتبے پر فائز شخص کو درخواست دینے کی ضرورت نہیں، یہ بھی فرمایا پارٹی ٹکٹ میری ضرورت نہیں پارٹی کی ضرورت ہے، ہم کہہ تو نہیں سکتے کہ نیتوں کا حال تو خدائے وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن لگتا ہے اس لمحے ان کے خیالات غالباً تکبر کی حدود میں داخل ہو گئے تھے اور جو شخص یہ کہتا تھا کہ پارٹی اس کی ضرورت نہیں وہ پارٹی کے لئے ناگزیر ہے وہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں بری طرح ہار گیا، پس ثابت ہوا کہ پارٹیاں کسی کے ساتھ کھڑی ہوں تو اس کا وزن دو چند ہو جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہو تو وزنی انسان بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔ 2018ء سے پہلے چودھری نثار پارٹی ٹکٹ پر ہی الیکشن جیت کر اسمبلی میں جاتے رہے، غالباً 2013ء میں انہوں نے صوبائی اسمبلی کی ایک

نشست پر آزاد الیکشن لڑا تو وہ اس سے ہار گئے اب کی بار وہ جیپ کے نشان پر الیکشن لڑ رہے تھے چونکہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے آخری روز بہت سے امیدواروں نے مسلم لیگ (ن)کا ٹکٹ واپس کر کے آزاد الیکشن لڑنے کو ترجیح اس لئے یہ سمجھا گیا اور شاید غلط ہی سمجھ لیا گیا کہ یہ کوئی ایسا گروپ ہے جو چودھری نثار علی کی قیادت میں متحد ہے اور جیت کر اسمبلی میں ایک متحدہ قوت کے طور پر سامنے آئے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا چوہدری نثار سمیت اس قسم کے سارے آزاد ہار گئے اور یہ تصور چکنا چور ہو گیا ہوتا یہ ہے کہ جس الیکشن میں بھی کوئی مخصوص نشان ’’پاپولر‘‘ ہو جاتا ہے اس کے متعلق ایسی داستان سرا ئی شروع کر دی جاتی ہے اب کی بار جیپ اس کا موضوع تھی لیکن سارے ہار گئے تو جیپ کا نشان زیر بحث ہی نہیں رہا، اب دوسرے آزادگان کے تذکرے ہیں جو وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کریں گے ۔سنا ہے اب کچھ آزاد پنچھیوں کو اپنے جہاز میں لاد کر جہانگیر ترین بنی گالہ لے جاتے ہیں اور انہیں رضاکارانہ طور پر تحریک انصاف میں شمولیت کی پیش کش کرتے ہیں

جو یہ آزاد ارکان خوشی خوشی قبول کر لیتے ہیں بعض آزاد ارکان سے عبدالعلیم خان بھی رابطے میں ہیں اور پنجاب کی حکومت سازی میں ان سے تعاون طلب کر رہے ہیں چوہدری پرویز الٰہی بھی متحرک ہیں، اب دیکھنا ہو گا کہ آزاد ارکان کس شخصیت کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوتے ہیں،شاہ محمود قریشی اس معاملے میں زیادہ سرگرم نہیں کیونکہ اول تو ان کی جہانگیر ترین سے بنتی نہیں دوسرے وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار کر وزارت علیا کی دوڑ سے باہر ہو چکے ، ویسے بھی جو کرشمات جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان دکھا سکتے ہیں وہ شاہ صاحب کے بس کی بات نہیں۔اگرچہ تحریک انصاف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن وہ اب بھی سادہ اکثریت سے ایک معقول فاصلے پر کھڑی ہے، اب تک اس کے پاس 112 نشستیں ہیں، جن میں ایک سے زیادہ نشستوں پر جیتنے والوں کا شمار بھی کیا جا رہا ہے لیکن جب قومی اسمبلی میں حلف ہو گا تو ایک نشست رکھ کر باقی سب خالی کرنا ہوں گی اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کے نوارکان ایسے ہیں جو ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔یہ نو نشستیں خالی ہوں گی تو تحریک انصاف کے ارکان 103تک رہ جائیں گے، سادہ اکثریت 137 ارکان سے بنتی ہے، اس لئے اتحادی جماعتوں کے ساتھ آزاد ارکان کو بھی ساتھ ملانا ضروری ہے اسی لئے جہانگیر ترین کا جہاز اب پھیرے لگا رہا ہے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائیگا تو سب سے پہلے سپیکر کا انتخاب ہو گا۔ موجودہ سپیکر سردار ایاز صادق کی نگرانی میں نئے سپیکر اپنے انتخاب کے بعد سپیکر کی کرسی سنبھال کر ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرائیں گے پارٹی پوزیشن اسی وقت واضح ہو گی اگلے روز قائد ایوان کا انتخاب ہو گا تو صورتحال کافی حد تک واضح ہو چکی ہو گی۔(ش،ز،خ)

Comments...
Advertisement


Follow on Twitter

Popular Posts
Your feedback is important for us, contact us for any queries.