Kya Mazhab Ki Tashreeh Sirf Molviyon Ka Haq Hai
Posted By: Pango on 28-07-2018 | 21:28:58Category: Political Videos, Newsکیا مذہب کی تشریح صرف مولویوں کا حق ہے؟
مجھے کچھ لوگوں کی مذہبی انتہا پسندی سے کم اور ماڈریٹ اکثریت کی سستی پر زیادہ حیرت ہوتی ہے۔ اگرچہ شکی لوگ اپنے شکوک کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی ماڈریٹ ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگ چستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں طالبان تو موجود ہیں لیکن لوگ زیادہ تر ماڈریٹ پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
یہ ایسا ملک ہے جہاں کنزرویٹو لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی مذہبی جماعتیں حکومت میں نہیں آ پاتیں۔ یہاں آزاد میڈیا ہے اور مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کے مقابلہ میں انٹرٹینمنٹ ایونیوز زیادہ محرک ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جس نے قانونی طریقے سے احمدیوں کو ذوالفقار بھٹو کے دور میں غیر مسلم قرار دلوایا۔ذوالفقار بھٹو پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے سب سے ذہین وزیر اعظم تھے۔ لیکن یہ بتاتا چلوں کہ پیپلز پارٹی جو اس وقت حکومت میں تھی کا ایجنڈا احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ حدود آرڈیننس اور توہین مذہب کے قوانین پورے زور و شور سے نافذ کیے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ انہیں پارلیمنٹ سے منظور نہیں کروایا گیا۔
آج کل سیاسی جماعتیں ان قوانین پر بحث کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتیں اس حقیقت کے باوجود کہ یہ آج کی دنیا کے انسانی حقوق کے قوانین کے خلاف ہیں۔ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی اور تفرقہ بازی کو قانونی شکل دی گئی ہے اور پاکستان دنیا بھر میں ایک متنازعہ ملک بن چکا ہے۔ منفی شہرت حاصل کرنے کے باوجود اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر میں رہتے ہوئے بھی پاکستان میں مین سٹریم میڈیا پر اور قانونی فورم پر ان قوانین کو بدلنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی رہی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت سیاسی حادثہ نہیں بننا چاہتی چاہے اسے 2 تہائی اکثریت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہ سب ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں مذہبی جماعتوں کو ووٹ کے ذریعے مسترد کیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں مسئلہ یہ نہیں کہ آبادی میں انقلاب آ گیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ آبادی بہت بزدل ہو چکی ہے جس کی وجہ مذہبی انتہا پسندی اور مولویوں کی شدت پسندی ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ کہیں ہاتھ سے نکل ہی نہ جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک خوف ہے جو اس تردید کی وجہ بن چکا ہے جہاں مسلمان یہ بات ناممکن سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان کسی دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث ہو سکتا ہے۔ ہمارے بچپن سے آج تک مذہب کا خوف پایا جاتا ہے اور یہ خوف ناقابل تردید قبولیت کے کلچر کے فروغ کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے۔
جب ہم بڑے ہوئے تو یہ دیکھتے ہوئے کہ زیادہ تر لوگ مذہبی رسوم کے ساتھ جڑے نہیں رہتے، یہ خوف ان لوگوں کے دلوں میں سمایا ہوا دیکھا ہے۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو ابتدائی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں لیکن پھر بھی وہ کبھی مذہبی معاملات میں سوال اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ یہاں ایسے ماڈریٹ اور تعلیم یافتہ مسلمان ہیں جو پبلک فورم پر مذہبی سوالات اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ مرکزی مسئلہ یہ ہے کہ مین سٹریم مذہبی سکالرز جب کسی چیز کو غیر مذہبی قرار دیتے ہیں تو کوئی بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا جس کی وجہ یہی خوف اور مذہبی رہنماوں کے خلاف بولنے کا ڈر ہے۔ ہماری ذاتی زندگیوں میں ہم بہت سی اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن پبلک میں ہم بہت ڈرتے ہیں اور آواز نہیں اٹھا پاتے۔ سب سے بڑا معاملہ احمدی کمیونٹی کا ہے۔
چونکہ عام مذہبی جماعتوں نے انہیں غیر مسلم قرار دیا ہے اور ان کا سٹیٹس ہمارے اوپر اثر انداز نہیں ہو سکتا اس لیے ہم سب نے بھی انہیں غیر مسلم ہی تسلیم کر لیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی مذہبی رہنماوں کو چیلنج کرنے کی سکت نہیں رکھتا اورکوئی سیاسی پارٹی بھی ان مذہبی پیشواوں کے خلاف کھڑے ہونے کا رسک نہیں لینا چاہتی۔ یہ حقیقت ہے کہ بزدلی، سستی اور اس خوف کی وجہ ان مذہبی رہنماوں کی شدت پسندی ہے جس کے تحت وہ مذہب کے بارے میں سوال اٹھانے والوں پر حملہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ بہت سے مواقع پر لوگوں کو اپنے جارحانہ بیانات واپس لینے پر مجبور کیے گئے ہیں۔ میڈیا بھی یا تو فینیٹسزم پھیلاتا ہے یا معاملات کو بڑھانے کی تاک میں رہتا ہے۔ سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، جیسے لوگ اسی پاگل پن کا شکار ہوئے ہیں۔
شیری رحمان کو بھی زبردستی اس مذہبی توہین کے قانون کے بارے میں اپنی تجاویز واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ مجھے ایک انٹرویو یاد ہے جس میں انہوں نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو آسیہ بھابی کے معاملے میں برداشت سے کام لینے کی اپیل کی ۔ آسیہ بی بی وہ عیسائی خاتون ہے جسے عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ اپنے انٹرویو کے اگلے دن میں نے عامر لیاقت حسین کو یہ کہتے سنا کہ اسلام میں مذہب کی توہین کی سزا موت ہے۔ وہ اس پروگرام میں شیری رحمان کا برملا مذاق اڑا رہے تھے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہم انسانی حقوق کے معاملے میں کوئی فیوچر نہیں رکھتے۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر ناظرین ان کے اس منطق سے اتفاق نہ بھی کرتے ہوں تو وہ پھر بھی کچھ نہیں کہ پائیں گے۔
ایک اور منطق یہ دی جاتی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ وجہ بتا کر مذہبی معاملات میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اصولی طور پر میں اس بات سے متفق ہوں کہ یہ ذاتی معاملہ ہے ۔ مختلف گروپ کے لوگ مذہب کو اپنے طریقے سے لیتے ہیں لیکن جب اسے قانونی شکل دی جاتی ہے تو یہ دوسروں پر نافذ کرنے کے مترادف ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمارے قانون کا حصہ بن چکا ہے اس لیے یہ اب ذاتی معاملہ نہیں رہا۔ اگر آپ اسے ذاتی معاملہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو ان قوانین پر بحث کرنی پڑے گی اور اس طرح آپ اس قانون کے ماخذ یعنی مذہب کو بھی بحث میں لانا ہوگا۔
ایک عادت جو مذہبی رہنماوں نے اپنا رکھی ہے وہ یہ کہ وہ لوگوں کو مذہب پر تنقیدی بحث نہیں کرنے دیتےاور حوالہ دیتے ہیں کہ ہماری اتنی کوالیفیکیشن نہین ہے کہ ہم ان معاملات کو زیر بحث لائیں لیکن جو چیز مجھے حیرت میں ڈالتی ہے وہ یہ کہ یہ ریفرنس اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے وقت نہیں پیش کیا جاتا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم مطلوبہ تعلیمات تک رسائی نہیں رکھتے اور ہم سب بیرونی معاملات میں ہر چال چلنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن مذہبی معاملات میں ہم ایسا نہیں کر سکتے جس کی تعلیم ہم کئی سالوں سے حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہماری تعلیم کو ناکافی قرار دیا جاتا ہے۔
جب تک ہم مذہب کی تشریحات تنقیدی نظر سے نہیں کریں گے ہم پھنسے رہیں گے۔ جب تک ہم مذہبی انتہا پسندوں سےیہ حق لے نہیں لیتے، ہم ہمیشہ ناکام رہیں گے اور دفاعی پوزیشن میں رہیں گے جب کہ دنیا بھر میں اسلام کو عدم برداشت کا مذہب قرار دیا جائے گا۔ میں تمام بھائیوں اور بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ سب اٹھ کھڑے ہوں اور اس نظام کو بدلیں۔ اسلام آپ کا مذہب ہے اور آپ کو اس مذہب کی تشریح کے لیے ان مولویوں کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اسے طریقے سے آج آپ سٹیٹس کو تبدیل کر سکتے ہیں۔