Bhutto Ke Aakhri Ayyaam...
Posted By: Ahmed on 23-07-2018 | 03:37:25Category: Political Videos, Newsپاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ آخری قسط
میں صدر صاحب کی خاص فلائٹ میں ان کے ساتھ مکہ معظمہ گیا۔ ہم نے ایک دن اور ایک رات مکہ معظمہ میں گزاری اور دو دن اور ایک رات مدینہ منورہ میں رہے جہاں ہم لوگ سعودی شاہی مہمان تھے‘ لیکن شام کے کھانے اور سحری کے علاوہ ہم لوگوں نے پورا وقت حرم شریف اور مسجد نبوی میں گزارا۔ میں نے جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کو ساری ساری رات نوافل ادا کرتے یا تلاوت میں مشغول دیکھا۔ ان کی اس لگن نے میرے دل میں ان کیلئے بے حد عقیدت و احترام پیدا کر دیا۔ اس سفر کے دوران میرا جنرل صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ آمنا سامنا ہوا لیکن سوائے ’’ السلام و علیکم‘‘ یا تعظیم بجا آوری کے کوئی خاص بات چیت نہ ہوئی۔
واپس آنے کے بعد اگر میں راولپنڈی میں موجود ہوتا تو ہر عید پر جنرل صاحب سے عید ملتا رہا‘ وہ مجھے ایسے موقع پر بڑے تپاک سے ملا کرتے تھے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد میری پلٹن واپس چھاؤنی میں منتقل کر دی گئی۔ چند ہفتوں بعد مجھے ملٹری سیکرٹری نے جی ایچ کیو بلا بھیجا۔ ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے اور صدر صاحب نے انہیں حکم دیا کہ مجھے باہر کسی ملک میں ملٹری اتاشی بنا کر بھیج دیا جائے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان فرائض کیلئے مجھے ملک سے باہر جانے کی تیاری کر لینی چاہئے۔
کچھ دنوں بعد میری تبدیلی دوبارہ ملٹری سکول کوئٹہ کر دی گئی‘ جہاں1980ء کے آخری ایّام میں ایک ضیافت کے دوران میرا اور جنرل ضیاء الحق صاحب کا آمنا سامنا ہوا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع تم ابھی تک یہاں ہی ہو۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے باہر بھیجنے کے احکام صادر کیے گئے تھے لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر ابھی تک ان پر عمل نہیں ہوا۔ جنرل صاحب نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو کچھ ہدایات دیں اور مجھے آخرکار1981ء کے اکتوبر میں جکارتہ ایمبیسی میں ڈیفینس اتاشی مقرر کر دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق صاحب نے 1982ء کے آخری دنوں میں انڈونیشیا اور ملائیشیا کا سرکاری دورہ کیا۔ آمد پر وہ مجھے اور میری بیگم سے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ملے۔ ان کے دورے کے دوران میں نے انہیں انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ سنگا پور اور برونائی پر بریفنگ دی اور ان کا فوجی لحاظ سے دورے کا اہتمام کیا ‘ جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ اس دورے کے دوران میں نے ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت الگ تھلگ بھی گزارا۔ چونکہ وہ رات گئے زیادہ کام کرتے تھے اس لئے میں نے ان کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے اور انہیں خاص کر انڈونیشیا کے فوجی نظامِ حکومت پر بریف کیا اور ان کے کئی شکوک کے جواب مہیا کئے۔ اس دورے کے دوران بھی انہوں نے سوائے سرکاری کام کے کسی دوسرے پہلو پر مجھ سے کوئی بات چیت نہ کی۔
میں اکتوبر 1984ء میں واپس پاکستان آگیا۔ شا ید میرے ایس ایس جی اور انٹیلی جنس کے لمبے تجربے کی بنا پر مجھے آئی ایس آئی اسلام آباد میں ایک خاص کام سونپا گیا۔ ان فرائض کو دوران مجھے صدر جناب ضیاء الحق صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔ چونکہ ہمارے کام کی نوعیت قومی لحاظ سے بہت اہم تھی اس لئے عموماً دو‘ تین ماہ میں صدرصاحب تقریباً ایک دن صبح سے شام تک آئی ایس آئی کے اس محکمے میں گزارا کرتے تھے‘ جہاں ظہر اور کئی مرتبہ عصر کی نمازیں بھی پڑھ کر جایا کرتے تھے۔ ایسے موقعوں پر صدر صاحب کو متعلقہ افسران آئی ایس آئی کی کارکردگی پر بریفنگ دیا کرتے تھے اورآئندہ کے پلان پر بھی بحث ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں مجھے کئی غیر ملکی اہم شخصیات کے ساتھ صدر صاحب کی ملاقاتوں کا بھی بندوبست کرنا پڑتا تھا‘ جن میں فارن آفس اور پروٹوکول وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا تھا‘ بلکہ ان دفاتر کو ایسی ملاقاتوں کا علم تک نہ ہوتا تھا۔ اس دورانئے میں مجھے دنیا کی سب سے زبردست اور نہ دکھائی دینے والی حکومت کے سربراہ سے لمبی ملاقاتوں کا بھی موقع ملا۔ ان چند سالوں کے دوران میری جنرل ضیاء صاحب کے ساتھ کبھی کوئی نجی بات چیت نہ ہوئی بلکہ ہماری گفتگو ہمیشہ صرف قومی ذمہ داریوں تک محدود رہی۔
1987ء کے آخری ایّام میں ‘ مَیں نے صدر صاحب کے ملٹری سیکرٹری کو کہہ کر ان سے ملاقات کا وقت لیا‘ جس کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ میرے کچھ دوست مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ مجھے اپنی یادداشتیں لکھنی چاہئیں۔ جنرل ضیاء الحق صاحب جو میرے ساتھ بڑے اچھے موڈ میں بات چیت کر رہے تھے میری یہ بات سنتے ہی فوراًغصے میں آ گئے اور مجھے کہا’’ کرنل رفیع‘ بھٹو کو مرے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں اور لوگ اسے بھول چکے ہیں‘ حتیٰ کہ اس کے اپنے رشتہ دار بھی اسے بھولنے والے ہیں‘‘ مجھے انہوں نے سخت لہجے میں تنبیہ کی کہ مجھے عقل سے کام لینا چاہئے۔ اس لمحہ وہ ایک مسکراتے جنرل نہ تھے بلکہ میں نے کم از کم انہیں کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔ وہ ملاقاتی کمرے میں اپنی کرسی سے اسی موڈ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور میں نے بھی اٹھ کر ان سے ہاتھ ملایا۔ جونہی میں نے دو چار قدم باہر نکلنے کیلئے‘ لئے تو انہوں نے مجھے بلاتے ہوئے کہا’’ کرنل رفیع اگر تمہیں کبھی بھی کوئی پرابلم ہو تو ضرور میرے نوٹس میں لانا‘‘اور نصیحت کے طور پر فرمایا کہ میں اپنے دماغ کو ٹھنڈا اور مطمئن رکھوں اور مردوں کو قبر سے نکالنے کی کوشش نہ کروں۔ میں اپنی کوتاہ اندیشی پر نادم اور خاموش ہو گیا اور بھاری قدموں سے ایوان صدر سے واپس آ گیا۔
مارچ1988ء میں‘ مَیں نے بیٹے کی شادی کے موقع پر صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کو دعوتِ ولیمہ کا کارڈ ایک خط کے ساتھ بھیجا۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ صدر صاحب کی بیگم صاحبہ علاج کیلئے ملک سے باہر گئی ہوئی ہیں البتہ جناب صدر اس موقع کو رونق بخشیں گے۔ ولیمہ پر صدر صاحب پرل کانٹی نینٹل راولپنڈی تشریف لائے۔ وہ اس شام بے حد ہشاش بشاش تھے اور مجھے بتایا کہ ایک اہم امریکی ڈیلی گیشن نے ان کو ملنا تھا لیکن میرے بیٹے کی شادی بھی ان کے لئے کوئی کم ضروری نہ تھی۔ انہوں نے دولہا اور دلہن کو تحائف سے نوازا اور کافی دیر پارٹی کو رونق بخشی۔ جاتے وقت میرے شکریئے کے بعد انہوں نے مجھے بمع بیگم اور ہمارے بیٹے ڈاکٹر ناصر رفیع اور بہو رباب ناصر کو ایوانِ صدر چائے پر مدعو کیا۔ چونکہ بیگم ضیاء الحق صاحبہ نے علاج کیلئے ملک سے باہر کافی عرصہ گزار دیا اس لئے ہم اس ضیافت کیلئے نہ جا سکے۔ اور پرل کانٹی نینٹل میں میری جنرل ضیاء الحق صاحب کے ساتھ ملاقات آخری ثابت ہوئی۔