Filmi o Adbi...Shakhsiyaat Scandals
Posted By: Ashad on 23-07-2018 | 03:29:47Category: Political Videos, Newsفلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر481
ابھی پنجابی فلموں کا سنہرا دور ختم نہیں ہوا تھا کہ بخشی وزیر کا دور روبہ زوال ہوگیا۔ انہوں نے قدرے کم فلموں میں کام کیا ہے لیکن بعد میں رفتہ رفتہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے انہیں قریباً فراموش ہی کردیا۔ زمانے کی ناقدری ، اپنوں کی بیگانگی اور بیکاری نے انہیں مختلف امراض میں مبتلا کر دیا جن میں شوگر کا مرض بھی شامل تھا۔ طبی تحقیق کے مطابق یہ مرض فکر اور پریشانیوں کے باعث پیدا ہوتا ہے اور ان میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ پاکستان کے دو بہت اچھے اور نامور موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ماسٹر عبداللہ بھی اس مرض کاشکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان دونوں کو فلمی دنیا نے فراموش کر دیا تھا۔ بیکاری نے تفکر اور پریشانی نے شوگر کی بیماری کو جنم دیااور بالآخر یہی مرض جان لیوا ٹھہرا۔
بخشی وزیر کے ساتھ بھی یہی سلوک روارکھا گیا تھا اس لیے انجام بھی ویسا ہی ہوا۔ بیماریوں اور بے روزگاری کے باعث دونوں بھائی یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آج شاید پنجابی فلموں کے دیکھنے والے اور فلم ساز شاید ان کے ناموں سے بھی واقف نہ ہوں گے۔
گزشتہ دنوں ایک روز ایک دوست کا ٹیلی فون موصول ہوا۔ علیک سلیک اور مزاج پرسی کے بعد کہنے لگے ’’ آپ کے ایک پرانے ملاقاتی میرے پاس بیٹھے ہیں۔ آپ سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ‘‘
ہم نے پوچھا ’’ اس سسپنس کی کیا ضرورت ہے۔ کون ہیں ۔ نام تو بتائیے؟‘‘
بولے ’’آپ آواز سن کر ۔ خود ہی پہنچان لیجئے۔ ‘‘ اور ریسیور کسی اور کودے دیا۔
دوسری جانب سے ایک مدھم سی زنانہ آواز سنائی دی ’’ہیلو۔ آفاقی صاحب ۔ السلام علیکم۔‘‘
’’ وعلیکم السلام ! ‘‘
ؔ ؔ ؔ ’’کہئے۔ مجھے پہچانا ؟‘‘
ہم نے کہا ’’ ابھی تک تو نہیں پہچانا۔‘‘
دوسری جانب سے ہلکی سی ہنسی کی آواز کے بعد پوچھا گیا ’’ کیا اب بھی نہیں پہچانا۔‘‘
ہم آواز پہچان گئے تھے۔ نام بتانے ہی والے تھے کہ دوسری جانب سے کہا گیا’’ آفاقی صاحب۔ میں کومل ہوں؟‘‘
ہم نے کہا ’’ ہم بھی اب آواز پہچان گئے تھے۔‘‘
در اصل کومل کے بولنے کا ایک خاص انداز یہ تھا کہ وہ آخری الفاظ کو ذرا لٹکا کر بولتی تھیں اور پھر ہنستی بھی تھیں۔
کہنے لگیں ’’شکر ہے کہ آپ پہچان تو گئے۔‘‘
ہم نے پوچھا ’’ اتنے عرصے کہاں رہیں ؟‘‘
بولیں ’’ باہر چلی گئی تھی ۔ دبئی میں تھی ۔ اب لاہور آگئی ہوں ۔ آپ نے آواز سے پہچان لیا ۔ میں تو آپ کو مان گئی۔ آپ سے تو ملے ہوئے بھی زمانہ گزر گیا۔ ‘‘
ہم نے کہاں ’’ ہاں ۔ آپریشن کے بعد جب ہم یو ، سی ، ایچ اسپتال میں تھے تو آخری بار وہی آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ ‘‘
ہمارا لسر کا آپریشن 1966ء میں ہوا تھا۔ اب آپ خود حسان لگا لیجئے کہ ہم نے کتنے طویل عرصے بعد کومل کی آواز سنی تھی۔
کومل سے ہماری زیادہ رسم و راہ کبھی نہیں رہی ۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ شاہ نور اسٹوڈیو میں ہمیں نظر آئی تھیں۔ کسی نے تعارف کرایا کہ یہ نئی اداکارہ کومل ہیں۔ کومل دراز قد ، دبلی پتلی بلکہ بہت نازک اندام لڑکی تھیں۔ کتابی چہرہ تھا۔ رنگت کھلتی ہوئی گندمی ، ناک نقشہ مناسب ، چہرے پر سب سے زیادہ نمایاں ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تھیں جو اکثڑ مسکراتی ہوئی لگتی تھیں۔ وہ بہت سادہ سے لباس میں تھیں۔ اس تعارف کے بعد ہم کسی اور طرف چلے گئے۔ یہ کومل سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں بہت مختصر گفتگو ہوئی تھی مگر کومل کی مدہم آواز اور ان کے بولنے کا انداز ہمیں کچھ مختلف لگا۔ ان کا یہ نام فلمی تھا جو شاید کسی نے (غالباً نخشب جار چوی صاحب نے) ان کی نزاکت کے پیشِ نظر تجویز کیا ہوگا۔ ہمیں صرف ان کا نام اور آنکھیں ہی یاد رہیں۔
کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ نخشب صاحب اپنی فلم ’’فانوس‘‘ میں شمیم آرا کو کاسٹ کرنا چاہتے ہیں مگر انہوں نے معذرت کرلی ہے۔ نخشب صاحب بمبئی سے نئے نئے آئے تھے۔ نغمہ نگاری کی شہرت کے علاوہ فلم ’’رفتار ‘‘ اور ’’ زندگی یا طوفان ‘‘ کے حوالے بھی ساتھ لائے تھے۔ عوامی شناخت اور شہرت دراصل انہیں کمال امرو ہوی کی فلم ’’محل ‘‘ کے گیتوں سے ملی تھی۔ اس کے موسیقار کھیم چند پر کاش تھے نخشب صاحب بہت اچھے فلمی نغمہ نگار تھے لیکن تحقیقی شہرت انہیں ’’محل ‘‘ کے گانوں سے ہی حاصل ہوئی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے گیتوں اور کھیم چندر پر کاش کی موسیقی نے فلم بینوں پر ایک سحر سا طاری کر دیا تھا۔ کمال صاحب نے کہانی ، منظر نامہ اور مکالمے بہت اچھے لکھے تھے۔ ان تمام خوبیوں نے مل کر ’’محل ‘‘ کو ایک ناقابلِ فراموش فلم بنا دیا اور وہ ہمیشہ ایک کلاسیکی فلم کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔
نخشب صاحب یوں تو پہلے بھی بمبئی کی فلمی دنیا میں اپنی فقرے بازی ، زندہ دلی ، خوش بیانی (جو بعض اوقات بدکلامی کی صورت بھی اختیار کر لیتی تھی) دوست نوازی اور بے باکی کے باعث خاصے مشہور تھے مگر ’’ محل‘‘ کی نمائش کے بعد ان کی شہرت اور مقبولیت بامِ عروج کو پہنچ گئی۔ نخشب صاحب کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ بقول شاعر۔۔۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
وہ پہلے ہی شیخی خور اور خود پسند تھے۔ ’’محل ‘‘ کے بعد متکبر بھی ہوگئے۔ تکبر اور خود پسندی یہاں تک بڑھ گئی کہ انہوں نے کسی دوسرے کو خاطر میں لانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بڑے بڑے لوگوں کے بارے میں کہہ دیا کرتے تھے کہ وہ کہاں کا شاعر یا ہدایت کار ہے۔ پاکستان تشریف لائے تو یہاں بھی ان کی اسی قسم کی گفتگو جاری رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کسی کو نہ تو لکھتا آتا ہے اور نہ فلم بنانا۔ اب میں انہیں بتاؤں گا کہ فلم کیا ہوتی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے پہلے ’’ فانوس‘‘ اور اس کے بعد ’’میخانہ ‘‘ بنائی ۔ دونوں فلموں کی موسیقی ناشاد نے مرتب کی تھی۔ نغمہ نگار ، مصنف اور ہدایت کار نخشب صاحب خود تھے۔ موسیقی تو بہت مقبول ہوئی لیکن یہ دونوں فلمیں بری طرح فلاپ ہوگئیں مگر ان ناکامیوں کے بعد بھی وہ بڑے بول بولنے سے باز نہ آئے۔ دراصل فلموں اور ریس سے انہیں کافی دولت حاصل ہوگئی تھی۔ چھڑے چھانٹ تھے ۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ نہ بیوی نہ بچے۔ بہن بھائی اگر ہوں گے تو ان کا کسی کا علم نہیں تھا۔ فلموں کو نغمہ نگاری کی بدولت بڑے بڑے سرکاری درباری لوگوں اور حکام سے ان کے دوستانہ مراسم ہوگئے تھے۔ خوش بیان اور میزبانی کے فن سی بخوبی آشنا تھے۔ اس لیے بڑے لوگوں سے دوستیاں آخری دم تک نبھاتے رہے۔ اچھا کھانے اور کھلانے کے بے حد شوقین تھے۔ خود بھی بہت لذیذ کھانے پکاتے تھے اور دوستوں کو دعوت عام تھی۔
نخشب صاحب کے بارے میں ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ۔ کومل کے سلسلے میں ذکر آیا تو دوبارہ اس لیے لکھنا پڑا تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ نخشب صاحب کے ساتھ کام کرنے سے شمیم آرا اور دوسرے قابلِ ذکر فنکاروں نے معذرت کیوں کر لی تھی۔
ہم نے شمیم آرا کی نانی صاحبہ سے پوچھا ’’ ماں جی ، سنا ہے آپ نے نخشب صاحب کی فلم میں شمیم آرا کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ بہت بڑی فلم بنا رہے ہیں۔ ‘‘
انہوں نے پان کی گلوری منہ میں دبائی اور بولیں ’’ آفاقی صاحب ، یوں کہ نخشب صاحب تو بہت بڑ بولے اور بدکلام آدمی ہیں۔ کیا ہم جانتے نہیں ہیں۔ ساری خبریں رکھتے ہیں۔ رہی بڑی فلم بنانے کی بات تو بھیا۔ جب چاند چڑھے گا تو ساری دنیا دیکھ لے گی۔ ‘‘
ان کا کہنا درست تھا۔ جب چاند چڑھا اور ’’فانوس‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تو ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کیسی فلم تھی۔ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ نخشب صاحب نے کچھ نامور فنکاروں سے تو خود ہی رابطہ نہیں کیا کہ ان کے ساتھ گزارا نہیں ہوگا۔ کچھ فنکاروں نے بہت شائستگی سے معذرت کر دی۔ چنانچہ قرعہ فال کو مل کے نام پڑگیا جو اس زمانے میں فلمی دنیا میں داخل ہونے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی تھیں۔ جب نخشب صاحب نے انہیں اپنی فلم میں ہیروئن بنانے کا وعدہ کیا تو کومل کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔فلم کی تکمیل کے دوران میں کومل کے ساتھ نخشب صاحب نے جو بد سلوکی اور بد لحاظی بلکہ بدتمیزی کی وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
(جاری ہے )