Indira Gandhi Jab Ek Chhoti Si Bachi Thi
Posted By: Akram on 19-07-2018 | 06:38:23Category: Political Videos, Newsاندرا گاندھی جب ایک چھوٹی سی بچی تھی تو اس کے پاس ایک گڑیا تو جو اسکے والد نے اس سے چھین لی ، جب ماں نے بیٹی کی سفارش کی تو نہرو کیا جواب دیا ۔۔۔۔۔؟ جاوید چوہدری نے ایک تاریخی واقعہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے نواز شریف اور مریم نواز کو سنا دیا
لاہور (ویب ڈیسک ) راج کول کشمیری پنڈت تھے‘ وہ 1716ء میں نقل مکانی کر کے دلی آ گئے‘ پڑھے لکھے تھے‘ وہ بہت جلد مغل دربار تک پہنچ گئے‘ بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے انھیں دلی کے مضافات میں جاگیر دے دی‘ راج کول کی جاگیر سے نہر گزرتی تھی‘ پنڈت نے نہر کے کنارے حویلی بنا لی‘ یہ اس نہر کی مناسبت سے نہرو کہلانے لگے‘،
نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپےی ایک کام میں لکھتے ہیں ۔۔۔ یہ لوگ انگریزوں کی آمد تک مغل دربار سے وابستہ رہے‘ راج کول کی چوتھی نسل کا ایک سپوت گنگا دھر نہرو بہادر شاہ ظفر کی سلطنت میں دہلی کا آخری پولیس چیف (کوتوال) تھا‘ یہ سمجھ دار انسان تھا‘ یہ مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد انگریز سرکار میں شامل ہو گیا۔اس کے تین بیٹوں نے بعد ازاں بہت عروج دیکھا‘ بڑا بیٹا بنسی دھر نہرو انگریز کے جوڈیشل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا‘ دوسرا بیٹا نندل لال نہرو راجپوتانہ میں وزیراعظم بنا اور تیسرا بیٹا موتی لال نہرو ہندوستان کا نامور وکیل اور سیاستدان ثابت ہوا‘ یہ دوبار کانگریس کے صدر بھی رہے‘ موتی لال نہرو کے صاحبزادے جواہر لال نہرو بہت ذہین تھے‘ والد انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا وکیل بنانا چاہتے تھے چنانچہ انھیں بچپن ہی میں لندن بھجوا دیا گیا‘یہ برطانوی اشرافیہ کے اسکول ہیرو(Harrow) کے طالب علم رہے‘ کیمبرج کے ٹرینٹی کالج سے ڈگری لی اور پھر بار ایٹ لاء کر کے 1912ء میں ہندوستان آ گئے‘ جواہر لال نہرو نے پریکٹس شروع کی تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں مشہور ہو گئے‘ شادی کی‘ بیٹی پیدا ہوئی‘ اس کا نام اندرا رکھا گیا‘ زندگی زبردست چل رہی تھی۔
یہ لوگ الٰہ آباد کے وسیع و عریض گھر میں رہتے تھے اورچاندی کے برتنوں میں سونے کے چمچ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ جواہر لال نہرو نے سیاست میں آنے کا اعلان کر دیا‘ والد نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئے‘ بیٹے کی ضد نے باپ کے ارادے کو چت کر دیا‘ فیصلہ ہوا جواہر لال نہرو کانگریس جوائن کریں گے‘ موتی لال نہرو نے فیصلے کی رات جواہر لال نہرو کے کمرے سے پلنگ‘ صوفہ اور پنکھا اٹھوا دیا‘ باتھ روم بھی بند کر دیا گیا اور ان کے تمام سوٹس‘ ٹائیاں اور بوٹ بھی اسٹور میں رکھوا دیے گئے‘ نہرو نے وجہ پوچھی تو والد نے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا بیٹا آپ اگر سیاست کرنا چاہتے ہو تو پھر آج سے سخت اور محروم زندگی کی عادت ڈال لو‘ فرش پر سونا سیکھ لو‘ کھدر اور گرگابی پہنو‘ پنکھے کے بغیر رہو اور لیٹرین میں جاؤ‘ سیاست اور شہزادگی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔نہرو نے فرش پر چٹائی بچھائی‘ وہ رات فرش پر گزاری اور پھر پوری زندگی فرش‘ کھدر‘ گرگابی اور لیٹرین کے ساتھ گزار دی‘ یہ دس سال جیلوں میں بھی رہے‘،
پولیس کی مار بھی کھائی اور قیدیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھایا لیکن پوری زندگی کوئی مطالبہ کیا اور نہ حکومت سے رعایت مانگی‘ مہاتما گاندھی نے 8 اگست 1942ء کو ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی‘ کانگریس نے تحریک کے آخری حصے میں غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا‘ کانگریسی گھر سے بدیشی مصنوعات نکال کر گلی میں ڈھیر کر دیتے تھے اور انھیں آگ لگا دیتے تھے۔جواہر لال نہرو نے بھی اپنے گھر کی تمام بدیشی اشیاء اکٹھی کر لیں‘ اندراگاندھی اس وقت بچی تھی‘ اس کے پاس ایک خوبصورت ولایتی گڑیا تھی‘ نہرو نے وہ گڑیا بھی لے لی‘ والدہ نے اعتراض کیا ’’ایک گڑیا سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘ نہرو نے جواب دیا ’’کاملا فرق پڑتا ہے‘ ہم نے اگر آج گڑیا پر سمجھوتہ کر لیا تو پھر ہم پوری زندگی ہر چیزپر سمجھوتے کرتے رہیں گے‘‘ نہرو نے اندرا گاندھی کے سامنے وہ گڑیا بھی جلا دی‘ اس کے بعد ان کے گھر میں کوئی غیر ملکی پراڈکٹ نہیں رہی یہاں تک کہ دروازوں اور کھڑکیوں کے کیل قبضے بھی دیسی تھے‘ دنیا یہ سمجھتی ہے بھارت آج جہاں ہے اس کی وجہ جواہر لال نہرو کی قیادت ہے‘ وہ نہ ہوتے تو آج بھارت بھارت نہ ہوتا‘ یہ شائین کرنے سے پہلے ہی بجھ گیا ہوتا۔
یہ ہوتی ہے سیاست‘ یہ ہوتی ہے لیڈر شپ‘پوری دنیا میں سیاست خدمت کا دوسرا نام ہوتا ہے اور خدمت اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک خادم مظلوموں‘ ضرورت مندوں اور مسکینوں کے مسائل نہ جان لے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء کو غریبوں سے اٹھایا‘ کیوں؟ کیونکہ قدرت انھیں عام انسان کا مسئلہ سمجھانا چاہتی تھی‘ اللہ نے انبیاء کو غربت‘ مسافرت‘ نقل مکانی‘ بیماری‘ جنگ‘ ظلم اور زیادتی کے ہر عمل سے گزارا چنانچہ یہ عام انسانوں کے ملجا اور ماوا ثابت ہوئے‘ لیڈر بھی اس وقت تک لیڈر نہیں بنتے یہ جب تک عام انسانوں کے دکھوں کے اندر سے نہیں گزرتے اور میاں نوازشریف اور مریم نواز اب اس عمل سے گزر رہے ہیں۔یہ اس وقت اس جیل میں ہیں جس میں انھیں 35 سال پہلے ہونا چاہیے تھا‘ یہ اگر35سال پہلے سسٹم کی سختیاں اور حقیقتیں دیکھ لیتے تو آج شاید یہ ملک مختلف ہوتا‘میں سمجھتا ہوںمیاں نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے ہیں لیکن یہ لیڈر اب بن رہے ہیں‘ یہ سونے کے چمچ کے ساتھ پیدا ہونے والے لوگ ہیں‘ ان کے لیے جیل کی وہ بی کلاس بھی اذیت ناک ہے جس میں مجرم کو الگ احاطہ‘ چار پائی (بیڈ)‘ گدا‘ ائیر کولر‘ اے سی‘ اخبارات‘ ٹیلی ویژن‘ اٹیچ باتھ ‘ گھر کا کھانا اور مشقتیوں کی سہولت حاصل ہوتی ہے،
یہ فلیٹس کے مالک اور منی ٹریل نہ دینے کے باوجود خود کو بے گناہ سمجھتے ہیں‘ یہ کیا جانیں بی کلاس کے ساتھ ایک سی کلاس بھی ہوتی ہے۔ایک ایسی سی کلاس جس میں چھوٹی سی بیرک میں تیس تیس لوگ فرش پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر سوتے ہیں‘ جس کی لیٹرین بیرک کے اندر ہوتی ہے اور تیس لوگوں کا بول وبراز دماغ کو گلا کر رکھ دیتا ہے‘ جس میں گرمیوں میں پنکھے اور سردیوں میں ہیٹر نہیں ہوتے اور قیدی گندا پانی اور ریت والی دال کھاتے ہیں اور جیلوں میں ایسی ایسی بیرکس بھی ہوتی ہیں جن میں بند انسانوں کے حال پر جانوروں کو بھی ترس آ جاتا ہے‘ یہ کیا جانیں ہزاروں لوگوں کے پاس منی ٹریل بھی ہے اور یہ فلیٹوں کے مالک بھی نہیں ہیں لیکن یہ اس کے باوجود جیلوں میں سڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ کیا جانیں سی کلاس کے بدقسمت لوگ بھی کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں‘جیل میں انھیں روٹی‘ کپڑے‘ چھت اور صاف پانی مل جاتا ہے جب کہ جیل کے باہر ایک وسیع ڈی کلاس بکھری ہوئی ہے‘ ایک ایسی ڈی کلاس جس کے پاس روٹی ہے‘ کپڑے ہیں۔چھت ہے اور نہ ہی دوا‘ تعلیم اور عزت ہے‘ یہ ڈی کلاس جیل کی سی کلاس کو حسرت سے دیکھتی ہے،
یہ لوگ کسی دن عام انسان بن کر عام انسانوں کو دیکھیں تو یہ کبھی آرام سے نہ سو سکیں‘ یہ کسی دن عوام میں اتر کر دیکھیں لوگوں کے چہروں پر غربت‘ بیماری اور ناانصافی کا باقاعدہ لیپ ہے‘ محرومی لوگوں کے منہ پر ملی ہوئی ہے اور یہ اس محرومی سے پناہ کے لیے کبھی اس لیڈر کے سائے میں چھپتے ہیں اور کبھی اس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے ہیں‘ لوگ زندگی کے خوف سے فرقوں میں بٹ جاتے ہیں‘ یہ خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے خودکش حملہ آور بن جاتے ہیں‘یہ اپنے بچے تک بیچ دیتے ہیں‘ ہمارا ملک گردوں کی عالمی منڈی بن چکا ہے۔لوگ گوداموں‘ باڑوں اور باتھ روموں میں لیٹ کر اپنے گردے نکلوا دیتے ہیں‘ یہ اپنے بچے مسجدوں اور مدرسوں میں چھوڑ آتے ہیں‘ کیوں؟ یہ سوچ کر کہ انھیں کم از کم روٹی تو مل جائے گی اور لوگ اپنی جوان بیٹیاں بوڑھوں سے بیاہ دیتے ہیں‘کیوں؟ کیونکہ ان کے سر پر بوڑھی ہی سہی لیکن چادر تو ہو گی‘ان کو تو پھر بھی وکیل اور جج دستیاب ہیں‘ ان کے نعرے لگانے والے بھی لاکھوں ہزاروں میں ہیں لیکن آپ تصور کیجیے ملک کی 94 جیلوں میں اس وقت 25 ہزار بے گناہ لوگ بند ہیں،
ہماری عدالتوں میں 18لاکھ مقدمے زیر التواء ہیں‘ یہ لوگ بے چارے وکیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی جج‘ یہ صرف اور صرف بددعا کر سکتے ہیں اور یہ ان لوگوں کی بددعائیں ہیںکہ ملک میں ستر برسوں میں ہر صاحب اقتدار سڑکوں اور عدالتوں میں ضرور ذلیل ہوا‘ قدرت نے اسے انصاف کے زخم چاٹنے پر ضرور مجبور کیا‘میاں نواز شریف بھی آج ان لوگوں کی بددعاؤں کے نتیجے میں اڈیالہ جیل میں بند ہیں۔یہ درست ہے میاں نواز شریف کیا کیا ٹھیک کریں گے لیکن سوال یہ ہے آپ لوگ اگر ٹھیک نہیں کر سکتے تو پھر آپ ذمے داری کیوں لیتے ہیں‘ پھر آپ وعدہ کیوں کرتے ہیں اور پھر آپ لیڈر کس چیز کے ہیں؟ دنیا میں باپ بننا آسان لیکن بچے پالنا بہت مشکل ہوتا ہے اور لیڈر صرف باپ نہیں ہوتے یہ قوم کو بناتے‘ یہ قوم کو پالتے بھی ہیں‘ آپ بھی اگر لیڈر ہیں تو لوگوں کو پال کر دکھائیں‘ غربت کو لوگوں کے چہروں سے نوچ کر دکھائیں پھر دنیا آپ کو لیڈر مانے گی اورآپ مہربانی فرما کر’’ بستر نہیں مل رہا‘ گرمی ہے‘ باتھ روم گندہ ہے‘ اخبار نہیں دیے جا رہے اور تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے‘‘وغیرہ وغیرہ یہ واویلا بند کریں،
ملک کے بیس کروڑ لوگ اس سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ آپ کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک چکے ہیں۔ان کی امیدوں کے پاؤں تک زخمی ہو چکے ہیں‘ یہ بدقسمت لوگ غربت کے ہاتھوں مرتے ہیں‘ یہ اس سے بچ جائیں تو انھیں بیماری کھا جاتی ہے اور یہ اگر اس سے بھی محفوظ رہ جائیں تو یہ ناانصافی کے کسی نہ کسی گڑھے میں جا گرتے ہیں‘آپ کو اڈیالہ جیل میں صرف بی اور سی کلاس نظر آ رہی ہے‘ اصل پاکستان آج بھی ملک کی گلیوں کوچوں میں بکھرا ہوا ہے‘کاش آپ وہ پاکستان بھی دیکھ سکیں‘ میری دعا ہے اللہ آپ کو ہدایت دے‘ آپ جیل سے اصل پاکستان کی اصل تصویرلے کر باہر آئیں اور ایک ایسے لیڈر بنیں جو صرف باپ نہیں ہوتا وہ قوم کو قوم بھی بناتا ہے ورنہ دوسری صورت میں قدرت کا یہ آخری سبق بھی رائیگاں چلا جائے گا‘ آپ کی 1999ء کی تلخ یادوں میں 2018ء کی دکھی یادوں کا اضافہ ہو جائے گا اور آپ لوگوں سے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے سوال کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے‘ آپ آخری مرتبہ بھی ڈی کلاس کے لیڈر نہیں بن سکیں گے۔(س)