BBC Aur CNN Mere Faislon...
Posted By: Ashad on 18-07-2018 | 03:54:10Category: Political Videos, Newsبی بی سی اور سی این این میرے فیصلوں کو درست اور اچھا قدم قرار دیتے مگر جسٹس افتخار چوہدری مجھے بلا کر کہتے ۔۔۔۔۔لاہور ہائیکورٹ کی ریٹائرڈ خاتون چیف جسٹس کے دھماکہ خیز انکشافات اس خبر میں ملاحظہ کریں
لاہور (ویب ڈیسک )جسٹس (ر) فخرالنساء کھوکھر انہی دنوں اخبارات میں نیو سنٹرل جیل فار وومن ملتان اور نیو سنٹرل جیل بہاولپور میں خواتین کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جیلوں میں خواتین حوالاتیوں کی تعداد اتنی ہو گئی ہے کہ جیلر کے پاس انکو رکھنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔
میں نے بطور سینئر پیونی جج لاہور ہائیکورٹ ان خبروں کا از خود جائزہ لیا اور ایک روز میں اور ڈسٹرکٹ سیشن جج ملتان نے نیو سنٹرل جیل فاروومن ملتان میں ریڈ کیا۔ یہ جیل میری جانی پہچانی تھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے کیسز کرنے کے جرم میں ایک سیاسی قیدی کی حیثیت سے میں نے تین ماہ سزائے موت کے قیدیوں کے انہی سیل میں گزارے تھے۔ میں جانتی تھی کہ پتھروں کی ان چار دیواریوں میں قیدی کتنا بے بس ہوتا ہے اور ان پر کیا گزرتی ہے میں نے جیل کے ہسپتال کا رخ کیا اور یہ دیکھ کر مجھے تکلیف ہوئی کہ میرے آنے سے دس منٹ پہلے ایک عورت نے بچے کو جنم دیا تھا اور وہ ننگا لوہے کی چارپائی پر ایک چادر میں لپٹا پڑا تھا۔میں نے پوچھا یہ عورت کس مقدمے میں گرفتار ہے؟ جواب ملا زنا آرڈیننس کے تحت قید ہے۔ میں سمجھ گئی یہ بھی وہی کیس ہوگا جس میں ایک عورت نے اپنی مرضی سے شادی کی ہو گی اور پولیس نے مرد اور عورت دونوں کو والدین کے ایماء پر گرفتار کر لیا ہوگا۔ پولیس نے مجبور کیا ہوگا کہ وہ اپنے خاوند کے خلاف بیان دے اور اس نے بیان نہیں دیا ہوگا لہٰذا اسے جیل ہو گئی۔
بعد میں پوچھنے پر یہی کہانی سامنے آئی۔ دکھ کی بات تھی کہ ایک معصوم بچہ جو جیل کی چار دیواری کے اندر لوہے کی چارپائی پر پیدا ہوا اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس کے بعد میں سزائے موت کے قیدیوں کی بیرکوں میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بارہ فٹ کے ایک سیل میں چھ چھ حوالاتی عورتیں قید تھیں۔ یہ ڈبل بیرک تھیں اس کے بعد میں ان بیرکوں میں گئی جہاں عورتیں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ یہ وہ بچے تھے جنہیں کوئی بھی رکھنے کو تیار نہیں تھا اور وہ جیل کی زہریلی فضا میں رہ رہے تھے ان کے معصوم ذہن پراگندہ ہو رہے تھے۔ دل اتنا دکھا کہ رہا نہ گیا اور میں نے سیشن جج سے مشورہ کیا اور حکم دیا کہ جون، جولائی کی تپتی ہوئی دھوپ میں کیکر کے درخت کے نیچے عدالت لگائیں اور جیلر سے کہا کہ وہ ان عورتوں کے چالان نکالے جو بال بچے دار ہیں۔ ان سب عورتوں کو میں نے جنرل ضمانت دے دی اور حکم دیا کہ اگر کسی عورت کے پاس ضامن نہیں ہے تو وہ اپنے ذاتی مچلکہ پر رہا کر دی جائے۔ اسکے بعد میں نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو بلا کر کہا کہ تم نے جگہ کی تنگی کی بات کی تھی۔
اب مجھے سزائے موت کی کوٹھری میں کوئی حوالاتی عورت نظر نہ آئے۔ دوسرے روز تمام ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اور میڈیا میں میرے اس کام کی دھوم مچ گئی۔ خبریں آ رہی تھیں کہ ایک بہادر جج کے مضبوط فیصلہ نے بچوں والی خواتین کو اس خوفناک گرمی میں جنرل ضمانتیں دے دی ہیں۔ یہی اقدام میں نے بہاولپور جیل میں بھی کیا۔ میرے پے در پے ریڈ سے مردانہ اور زنانہ جیلوں کی حالت سدھر گئی۔ CNN اور BBC نے میرے فیصلوں کو ایک بہادر جج کا فیصلہ قرار دیا۔ میں جب لاہور واپس آئی تو مجھے جسٹس افتخار حسین چودھری صاحب نے بلایا اور کہا کہ میں نے بغیر نوٹس دیئے قیدی عورتوں کو ضمانت دی ہے۔ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ افتخار صاحب اس جھلسا دینے والی گرمی میں سسکتے تڑپٹے ننگے بچوں کی نہ دیکھ سکی اور میرے دماغ میں انصاف کی گھنٹی بج گئی میں نے انصاف کر دیا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے کوئی قانونی غلطی کی ہے تو کوئی دو جج بٹھا کر میرا فیصلہ معطل کر دیں مگر اسے کبھی یہ ہمت نہ ہو سکی۔ مگر بہت بعد میں جب میری ریٹائرمنٹ قریب آئی تو جسٹس افتخار حسین چودھری صاحب میرے اس فیصلے کو نظر ثانی کرنے بیٹھ گئے اور انتہائی گھناؤنی سازش کے تحت مجھے ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی۔ دراصل میں نیچرل جسٹس پر اعتماد رکھتی تھی اور Technical اندازِ فکر کبھی کبھی انصاف کی فی الفور فراہمی کے لئے ایک منصف کو تکنیکی پیچیدگیوں کو پس پشت ڈال کر فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ میرے جیل کے دورے کے دوران چھوٹے چھوٹے بچوں والی ماؤں کی ضمانت سے بھی تاکہ بچے اس زہریلے ماحول سے نکلیں۔ لیکن چیف جسٹس نے دو سال کے بعد میرے اس فیصلے کو ایک اسکینڈل بنانے کی کوشش کی۔ وہ تو بھلا ہو ان قیدی عورتوں کا جنہوں نے چیف جسٹس کی نگرانی میں تحریر کردہ درخواست پر دستخط سے انکار کر دیا۔ میں آج بھی ان خواتین کا سوچتی ہوں جن کا میں نام تک نہیں جانتی تھی اور وہ کردہ یا نا کردہ جرائم میں اپنے بچوں کے ساتھ جیلوں میں قید تھیں۔ ان خواتین کا ضمیر کتنا مضبوط تھا۔ اس واقعہ کا میں بعد میں ذکر کروں گی۔(ز،ط)