25 July Ka Election Kaisa Hoga?
Posted By: Abid on 14-07-2018 | 09:12:02Category: Political Videos, News25 جولائی کا الیکشن کیسا ہو گا اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟ حامد میر ، ارشاد بھٹی اور سلیم صافی کا خصوصی تبصرہ ملاحظہ کیجیے
کراچی (ویب ڈیسک)نواز شریف کی وطن واپسی اور ملک میں خودکش حملوں پر جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں سینئر تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے، پشاور اور بلوچستان میں خودکش حملوں کی وجہ سے سوگ کی فضا ہے،
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ سول و ملٹری قیادت پاکستان کے تحفظ کیلئے یکجان ہوجائے، ماضی میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے نواز شریف کو لیڈر بنایا گیا،اب نواز شریف والا کردار عمران خان کو دیدیا گیا ہے، پچیس جولائی کا الیکشن پاکستان کے متنازع ترین انتخابات میں سے ایک ہوگا، الیکشن سیاسی استحکام کے بجائے سیاسی انتشار کی طرف لے جارہا ہے۔ خصوصی ٹرانسمیشن میں ارشاد بھٹی ، حفیظ اللہ نیازی،حامد میراور مظہرعباس نے بھی اظہار خیال کیا۔سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ عمران خان کو ن لیگی کارکنوں کو گدھا نہیں کہنا چاہئے تھا، ن لیگ کے کارکن بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں جتنے قابل احترام ہیں، سول ملٹری قیادت مل بیٹھ کر ملک کو آگے لے کر جائے، انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں جیت پاکستان کی ہونی چاہئے، عوام نواز شریف کا استقبال کرنا چاہتے ہیں اور قانون بھی اجازت دیتا ہے تو رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہئیں، نواز شریف کو وطن واپسی کے بعد سزا بھگتنی ہے وہ اگرلاہور میں کر چکر لگالیتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے دھرنے، لہجے، کنٹینر سب وہی ہے جس پر وہ 2014ء میں تنقید کرتے تھے، شہباز شریف بھول گئے
انہوں نے ماڈل ٹاؤن میں رکاوٹیں ہٹا تے ہوئے پندرہ لوگ مار دیئے تھے، قصور میں زینب کے انصاف کیلئے لوگ نکلے تو دو افراد ماردیئے تھے، نابینا ہوں، ڈاکٹر ہوں، نرسیں ہوں انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ سیاستدانوں کو خودکش حملوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر اپنی انتخابی سرگرمیاں ایک دن کیلئے معطل کردینی چاہئے تھیں، لیکن یہ قیادت نہیں جلاد اور قصائی ہیں، ان میں رتی برابر بھی جمہوریت نہیں ہے۔سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ن لیگ معمول کی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے، چار بجے تک لاہور کی سڑکوں پر پچاس ساٹھ ہزار لوگ اکٹھے ہوچکے تھے، پچھلے چند دنوں سے لاہور میں ن لیگی کارکنوں کوا ٹھایا جارہا ہے، ایاز صادق نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بات کی ہے، اس صورتحال میں آئی جی پنجاب کا رویہ بہت معاندانہ رہا ہے، ن لیگ کو حکومتی کریک ڈاؤن کا بہت فائدہ پہنچا ہے، پورا لاہور نکل آیا ہے اب سب کی نیندیں اُڑ جائیں گی۔سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ کنٹینر کی سیاست پر تنقید کرنے والے شہباز شریف آج خود کنٹینر کا استعمال کررہے ہیں، شہباز شریف ایئرپورٹ جانے کیلئے کنٹینر کے بجائے ٹرک پر چڑھ جاتے
تو لوگوں کوا عتراض کا موقع نہیں ملتا، شہباز شریف نے ماضی میں احتجاج روکنے کیلئے پورے پنجاب میں کنٹینر کھڑے کردیئے تھے، شہباز شریف جو کنٹینر اپنی حکومت بچانے کیلئے استعمال کرتے تھے آج وہی کنٹینر نگراں حکومت شہباز شریف کو روکنے کیلئے استعمال کررہی ہے، نگراں حکومت کو وہ کام نہیں کرنا چاہئے جو نواز شریف اور شہباز شریف نے 2014ء میں کیا تھا۔حامد میر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پاکستان آنے سے زیادہ بڑی خبر مستونگ خودکش حملے میں 44لوگوں کی شہادت ہے، اگر اتنے لوگ کراچی، لاہور یا پنجاب کے کسی شہر میں شہید ہوتے تو طوفان برپا ہوتا لیکن یہاں ہماری توجہ نواز شریف کی واپسی پر مرکوز ہے، ایک طرف دہشتگرد ہمارا خون بہارہے ہیں دوسری طرف ن لیگ کے کارکن اور پولیس ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں، میڈیا کو مستونگ میں 44لوگوں کی شہادت پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔حامد میر نے کہا کہ ن لیگ بے شک اپنی ریلی ختم نہ کرے مگر بنوں او رمستونگ حملوں میں شہادتوں پر بھی بات کرے، 2014 ء میں عورتوں کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا اس وقت کون وزیراعلیٰ تھا، نومبر 2017ء میں میڈیا کو بلیک آؤٹ کیا گیا تو پاکستان میں کس کی حکومت تھی، ن لیگ آج آزادیٴ صحافت کی علمبردار بن رہی ہے مگر جب ان کی حکومت تھی توا یک حکم سے پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز بند کردیئے تھے، عمران خان سمیت دیگر اعلیٰ سیاسی قیادت کو ہارون بلور کی شہاد ت پر تعزیت کرنے غلام احمد بلور کے پاس جانا چاہئے تھا، سیاستدانوں کو الیکشن ملتوی کروانے کی دشمن کی سازشوں کا اکٹھے ہوکر مقابلہ کرنا چاہئے۔ سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ اگر سیکیورٹی اقدامات لاہور ایئرپورٹ تک محدود رکھے جاتے تو صورتحال اتنی خراب نہیں ہوتی، نواز شریف کی سیاسی زندگی میں جہاز اور کنٹینر کا بڑا عمل دخل رہا ہے، نواز شریف کیلئے جیل نئی چیز نہیں ہے وہ سولہ مہینے اٹک جیل اور لانڈھی جیل میں رہ چکے ہیں، سیاسی جماعتوں کے قائدین کے مقابلہ میں کارکنوں کی سطح پر بہتر رویہ ہے۔(ش۔ز۔م)