Pakistani prisoners in Indian jails
Posted By: Ali on 25-12-2017 | 09:03:22Category: Political Videos, News’’ماں کےلیے تو ایک رات اپنے بچے کے بغیر کاٹنا مشکل ہوتی ہے اور میں سات ماہ سے اس کی راہ تک رہی ہوں۔ ہر پل، ہر لمحہ یہ سوچتی ہوں کہ ابھی دروازہ کھلے گا اورمیرا حسنین گھر میں داخل ہوگا۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہوگا؟ اس کا خیال کون رکھتا ہوگا؟ وہ بدنصیب تو بول سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے۔‘‘
عشرت جاوید یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئی۔ وہ کبھی اپنی گود میں بیٹھی چھوٹی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتی تو کبھی اپنے بیٹے کے گم ہونے کی داستان سنانے لگ جاتی۔ عشرت جاوید کا 15 سالہ بیٹا حسنین 2 مئی 2017 کو گھر سے نکلا اور پھر واپس لوٹ کرنہیں آیا۔ اب سات ماہ بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ ان کا بیٹا پڑوسی ملک بھارت کے شہر امرتسر کی سینٹرل جیل میں قید ہے۔ یہ خاندان لاہور رِنگ روڈ کے قریب واقع چھوٹی سی آبادی بھماں کا رہائشی ہے۔ حسنین کے والد جاوید اقبال گھروں میں رنگ و روغن کرتے ہیں، ان کے سات بچے ہیں جن میں حسنین سب سے بڑا اور پیدائشی طور پر گونگا بہرا ہے۔ ایک چھوٹی بیٹی بھی اسی معذوری کا شکار ہے۔ بیٹے کے زندہ سلامت ہونے کی خبرسے ان کے مرجھائے چہرے پھر سے کھل اٹھے ہیں اور اب یہ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کب ان کا جگر گوشہ واپس گھر آئے گا۔
حسنین کو 17 مئی 2017 کو بھارتی بارڈرسیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے گرفتارکیا تھا۔ گونگا بہرا ہونے کی وجہ سے یہ اپنا نام پتا، کچھ نہیں بتا سکتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شناخت کرنا مشکل تھی۔ بھارتی حکام کے مطابق یہ بچہ پاکستانی کرنسی نوٹ، قائداعظم کی تصویر اور پاکستانی پرچم کو پہچان لیتا تھا؛ اسی بنا پر امرتسر جیل انتظامیہ نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کیا اور بچے کی تصویر انہیں بھیجی تاکہ اس کی شناخت ہوسکے۔ اس طرح اس بچے کے خاندان کو تلاش کرنا ممکن ہوا۔
یہ تو صرف ایک حسنین کی کہانی ہے۔ بھارت کی امرتسر جیل میں اس وقت 30 قیدی ایسے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی ہیں لیکن آج تک ان کی شہریت کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ ان 30 قیدیوں میں دو گونگے اور بہرے ہیں۔ مئی 2017 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی جیل حکام نے ان 30 قیدیوں کے بارے میں نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کیا تاہم ابھی تک پاکستان میں ان کے خاندانوں کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
یہ 30 قیدی اس وقت امرتسر جیل کے ٹرانزٹ کیمپ میں ہیں۔ اس کیمپ میں ایسے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی سزائیں مکمل کرچکے ہیں لیکن ان کی شہریت کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی رہائی نہیں ہوپاتی۔ ان میں 30 سالہ گونگا بھی ہے جسے 2007 میں بھارت میں غیرقانونی داخلے کے الزام میں گرفتار کرکے پاسپورٹ ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی۔ اس بیچارے کی سزا مکمل ہوئے دس سال گزر چکے ہیں مگراسے ابھی تک رہائی نصیب نہیں ہوسکی؛ کیونکہ وہ اپنا نام بتاسکتا ہے اورنہ یہ معلوم ہو سکا ہے کہ وہ پاکستان کے کس علاقے کا رہنے والا ہے؟ اسی طرح ایک خاتون شکلہ گھوش ہے، 57 سالہ اس خاتون کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی ہے، اس کے والد کا نام کرن موہن ہے، ممکنہ طور پر یہ خاتون سندھ کی رہائشی ہوسکتی ہے تاہم آج تک اس کی بھی شہریت کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ 38 سالہ عبداللہ کا تعلق بلوچستان سے بتایا جاتا ہے، اسے 1997 میں گرفتار کیا گیا۔ ایک اورشخص تنویر احمد ہے جس کا تعلق قصور سے ہے، اسے گزشتہ برس فروری میں بی ایس ایف نے گرفتار کیا، اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی جسے بی ایس ایف نے ناکام بنا دیا اوراب یہ بھی 6 ماہ سزا کاٹنے کے بعد ٹرانزٹ کیمپ میں ہے۔
ٹرانزٹ کیمپ میں قید کے دوران علی نام کا ایک گونگا 2014 میں دم توڑ گیا تھا۔ اس کی اپنے گھر واپسی کی امیدیں اس کے ساتھ ہی دم توڑ گئیں اوراسے بھارت میں ہی سپردِ خاک کردیا گیا تھا۔ ان قیدیوں میں چند ایک ایسے ہیں جن کا ذہنی توازن درست نہیں۔ بھارتی حکام کے مطابق ان قیدیوں کے بارے میں پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کیا گیا مگرصرف چارافراد کی شہریت کی تصدیق ہو سکی ہے، جبکہ باقی قیدیوں کے خاندان کو تلاش نہیں کیا جا سکا اور یہ لوگ سزائیں مکمل ہونے کے باوجود قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔
ایسے قیدیوں کی شہریت کی تصدیق کیوں نہیں ہوپاتی؟ اس کی کئی ایک وجوہ ہیں۔ ان قیدیوں کی طرف سے غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں جن کی پاکستان کی طرف سے تصدیق نہیں ہوپاتی۔ اس کے علاوہ کئی لوگ ذہنی معذوری کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بارے میں درست معلومات نہیں دے پاتے اور اسی بنا پر ان کی رہائی بھی ممکن نہیں ہو پاتی ہے۔
پاکستانی سفارتی حکام کا مؤقف ہے کہ جب تک کسی قیدی کی شہریت کی تصدیق نہیں ہوجاتی کہ وہ پاکستانی شہری ہے، اس وقت تک ہم اسے کیسے قبول کرسکتے ہیں؟ اگر ہم لے بھی لیں تو اسے کہاں بھیجیں گے؟ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی اور بھارتی شہری شکل وشباہت میں خاصی مماثلت رکھتے ہیں، اب محض کسی کے پاکستانی ہونے کے دعوے ہی سے اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ اس دعوے کی تصدیق نہ ہوسکے۔
اس کی بڑی مثال بھارتی لڑکی گیتا کی ہے جو گونگی اور بہری تھی، اسے پاکستان نے خیرسگالی کے طور پر بھارت کے حوالے کیا مگر اب دو سال گزرجانے کے باوجود بھارت میں گیتا کے والدین کو تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔ اب تک دس خاندانوں سے گیتا کو ملوایا جا چکا ہے لیکن وہ خاندان اپنے دعوے کی تصدیق نہیں کرسکے اور گیتا پاکستان کے ایدھی ہوم سے رہا ہوکر بھارت کے اناتھ آشرم میں زندگی گزار رہی ہے۔
ہمیں ایسے افراد کے بارے میں کوئی واضح انتظامی و سفارتی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تاکہ بھارتی جیل میں قید کسی بھی مبینہ پاکستانی کی شہریت کی بروقت تصدیق کی جاسکے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگوں کی بڑی تعداد تک پہنچنا اور کسی گمشدہ شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنا خاصا تیز رفتار اور آسان ہوگیا ہے۔ اس معاملے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی ایسی معلومات کی تشہیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر انہیں سرکاری ذرائع سے براہِ راست ایسی اطلاعات ملیں گی تو یقیناً وہ بھی ایسے افراد کی شناخت اور انہیں ان کے اہلِ خانہ سے دوبارہ ملوانے کے کام میں اہم عمل انگیز بن سکیں گے۔
لیکن یہ سوچنے کےلیے جدید آلات سے زیادہ انسانی ہمدردی پر مبنی سوچ کی ضرورت ہے؛ اور یہ سوچ شاید ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں میں مفقود ہے۔