Question on going to Ayodhya's Yoga epidemic
Posted By: Akram on 24-12-2017 | 06:44:17Category: Political Videos, Newsانڈیا کی ریاست اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مسمار شدہ بابری مسجد کے مقام پر تعمیر متنازع رام مندر میں پوجا تو کی لیکن اس کا مقصد ہندوتوا اور رام مندر کے تئیں اپنی وفاداری کا ڈنگا بجانا نہیں تھا۔
ہندوتوا کے انتہا پسند نظریے پر عمل کرنے والوں کو اپنے عزم کا پیغام دینے کے لیے انہیں ایسا کوئی علامتی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭ سختگیر رہنما یوگی آدتیہ ناتھ یو پی کے وزیر اعلی
٭ اترپردیش کا مسلمان اتنا پریشان کیوں؟
تو پھر وہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی جیسے بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کے خلاف بابری مسجد کی مسماری سے متعلق کیس میں مجرمانہ سازش کی فرد جرم عائد کیے جانے کے صرف ایک دن بعد ایودھیا کیوں گئے؟
یہ دراصل ہندوتوا کے کڑھائی کو کبھی دھیمی تو کبھی تیز آنچ پر ابالتے رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
جب وہ پہلے رام مندر اور پھر ایودھیا سے گزرنے والی سریو ندی کے گھاٹ پر پوجا کر رہے تھے تو ایک طرح سے وہ اسی سیاسی پیغام کو دہرا رہے تھے جو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتر پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ریاست کے مسلمانوں کو دیا تھا: 'نہ ہم مسلمان کو ٹکٹ دیں گے اور نہ ہمیں ان کے ووٹ کی ضرورت ہے۔'
بی جے پی کے بڑے رہنما جانتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعلیٰ یوگی کی ایودھیا یاترا سے رام جنم بھومی کی تحریک پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔
بی جے پی لگاتار کہتی رہی ہے کہ اس مسئلے کو باہمی مذاکرات یا عدالت کے ذریعہ ہی حل کیا جائے گا۔
لیکن ہندوتوا کی بھٹی کی آگ کو لگاتار سلگائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رام جنم بھومی کا مسئلہ سرخیوں میں رہے تاکہ لوگ اسے بھول نہ جائیں اور اسے ہندوؤں کے حقوق کی لڑائی سے جوڑا جا سکے۔ اس آگ کو جلائے رکھنے کے لیے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ اداروں سے وابستہ درجنوں لوگ اور تنظیمیں اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق کبھی گائے تو کبھی انڈین فوج، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، لو جہاد، اینٹی رومیو سکواڈ یا گھر واپسی جیسے معاملات اٹھاتے رہتے ہیں۔