Trip to Mumbai, interpretation of a long dream
Posted By: Ahmed on 24-12-2017 | 04:16:30Category: Political Videos, Newsممبئی سے میرا رشتہ روحانی ہے۔
ریس کورس، گودی (پورٹ)، سیوڑی، مدن پورہ اور حاجی علی درگاہ جیسے مقامات سے میرا غائبانہ تعارف بچپن میں ہی ہوچکا تھا۔
پاکستان کی خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں میرے دادا باغ شاہ آفریدی کے حجرے میں مقامی اکابرین آتے تو تنازعات پر بحث کے علاوہ ممبئی کا ذکر بھی ہو جاتا۔
ممبئی والوں کا مزاج
ہم بچے یہ باتیں غور سے سنتے اور چائے کی پیالیوں کو اس وقت تک بھرتے رہتے جب تک مہمان اپنی پیالی الٹی نہ کرتا (سیدھی پیالی کا مطلب مزید چائے)۔
بزرگوں کے بقول ممبئی والے نرم مزاج اور احترام سے پیش آنے والے لوگ تھے۔
دادا جنگ عظیم اوّل کے قصے بھی سناتے جن میں لندن، فرانس اور بیلجیئم کا ذکر آتا۔
یوں میں نے ممبئی، فرنگیوں اور لندن کا ایک تصور بنا لیا تھا۔
لندن کئی برس پہلے بی بی سی کی ملازمت کے سبب دیکھ لیا تھا اور ممبئی گزشتہ نومبر جانا ہوا جب بی بی سی ہندی سروس کے ساتھ ڈیجیٹل صحافت کی تربیت کے لیے دلی جانا ہوا۔
ممبئی کے 'اصل خان'
تقسیمِ ہند سے پہلے بہت سے قبائلی روزگار کے لیے ممبئی کا رخ کرتے تھے۔
کئی قبائلیوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں کیں۔ بعض 'ہندوستانی' بیویوں کو گاؤں لے آئے، کچھ وہیں کے ہو رہے۔
میں تعلیم کے لیے کراچی گیا تو والد سے بھی ممبئی کا ذکر سنا۔ روزگار کی تلاش انھیں 1940 میں بارہ برس کی عمر میں ممبئی لے گئی تھی۔ بارہ آنے یومیہ دیہاڑی ملتی تھی۔ تیراہ میں تعلیم تھی اور نہ ہی مالی استطاعت۔ ممبئی میں نوکری کے ساتھ مدن پورہ کے ایک سکول میں خود ہی داخل ہو کر کچھ پڑھنا لکھنا سیکھا۔ کہتے تھے کم عمر بچوں کے ساتھ بیٹھنے سے شرم آتی تھی۔ وہ 1953 میں کراچی منتقل ہوئے۔
انگریز کا انصاف
ایک بار والد صاحب نے بتایا کہ ایک صبح ریس کورس کے گیٹ پر چوکیدار تھے۔ آٹھ بجے سے پہلے کسی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے بقول مہاراجہ کشمیر دس منٹ پہلے پہنچ گئے اور گیٹ کھولنے کو کہا۔ میرے والد کے انکار پر انگریز سیکریٹری سے شکایت کر دی۔ تاہم سیکریٹری نے یہ کہہ کر انھیں خاموش کر دیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
غالباً ایسے ہی واقعات عام لوگوں میں انگریزوں کی انصاف پسندی کی شہرت کا باعث بنے ہوں گے۔ بڑے بوڑھے اکثر کہتے تھے 'انصاف تو انگریز کرتے تھے!'
ممبئی میں پخیر راغلے
میرے رشتے کے ایک چچا نے ممبئی میں بھی شادی کی تھی۔ بس اتنا معلوم تھا کہ وہ ممبئی کی ایک پرانی بستی سیوڑی میں رہتے تھے۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ وہاں ایک بند دکان پر خان آٹوز لکھا دیکھا تو ٹیکسی سے اتر کر ایک دکاندار سے پٹھانوں کا پوچھا۔ پتہ چلا کہ آگے بائیں مڑ کر پٹھانوں کی مسجد ہے۔
مغرب کی نماز کے بعد امام مسجد سے پٹھانوں کا پتہ کیا تو انھوں نے ایک ادھیڑ عمر شخص کی طرف اشارہ کیا۔
مذکورہ شخص نے پہلے زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی۔ میں نے رشتے کے چچا، ممبئی میں ان کی شادی، اور تیراہ کا ذکر کیا۔ کہنے لگے: 'پشتو آتی ہے؟'
پشتو میں میرے جواب پر یکدم گرمجوشی آگئی۔ کہنے لگے تم آفریدی تو کھڑی بولی بولتے ہو۔ پھر خود بھی وہی لہجہ اپنا لیا۔
سید شاہجہان کے والد سوات سے ممبئی گئے تھے۔ ان کے بقول ممبئی کے تمام پٹھان تِتربتر ہوچکے ہیں۔ بوڑھے رہے نہیں اور نوجوان پختونولی جانتے نہیں۔
چچا پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، بیٹے کہیں اور جا بسے تھے۔ البتہ کئی ٹیلی فون کرکے چچا کے ایک سالے سے بات کروائی۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ کھانے اور رات رکنے کی دعوت دی۔ میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی۔
ممبئی میں مادری زبان میں بات کرنے کا لطف ہی اور تھا۔ ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے ممبئی کراچی جیسا لگا اور پشتو میں بات کرکے تو رہی سہی اجنبیت بھی جاتی رہی۔ اور ممبئی کو بھی کراچی جیسا ہی غریب پرور شہر پایا۔
اور یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ جس شہر میں میرے والد نے بارہ آنے یومیہ اجرت پر کام کیا، 77 برس بعد اسی شہر کے ایک بڑے مہنگے ہوٹل میں میرا قیام رہا۔