Is silence on women's sexual expression?
Posted By: Wali on 24-12-2017 | 04:12:17Category: Political Videos, Newsانڈین معاشرے میں خواتین کے جنسی اظہار کے معاملے میں بہت زیادہ باتوں سے گریز کیا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ اب یہ خاموشی ٹوٹ رہی ہے۔
اس کی تازہ مثال شاہ رخ خان کی فلم رئیس ہے۔ اس فلم کا آئٹم نمبر 'لیلیٰ او لیلیٰ' کئی ہفتے پہلے ریلیز ہوا تھا۔
اداکارہ سنی لیونی پر فلمایا جانے والا 'لیلیٰ او لیلیٰ' نغمے کو یوٹیوب پر اب تک 8 کروڑ سے بھی زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔
'لیلیٰ او لیلیٰ' ہو 'چکنی چنبیلی' ہو یا پھر 'شیلا کی جوانی' اس طرح کے آئٹم گانے اب فلموں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
تاہم زبردست ہٹ ہونے کے باوجود ان پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ ایسے آئٹم سانگ میں خواتین کو بطور ایک ’آبجیکٹ‘ کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
آج کل بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ ایسے نغموں میں عورت کو ’اوبجیكٹیفائی‘ کیا جاتا ہے یا پھر انھیں اپنے جسم کے ساتھ مطمئن ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اداکارہ سنی لیونی کا کہنا ہے کہ اس طرح کا جنسی اظہار کسی بھی طرح سے غلط نہیں ہے۔
لیکن گھریلو خاتون مینا پانڈے کو ایسے آئٹم سانگ سے شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'لیلیٰ او لیلیٰ' جیسے نغمے کو وہ بچوں کے ساتھ، یا پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتی۔
لیکن دوسری طرف نئی نسل کی لڑکیاں ہیں جو اس طرح کے جنسی اظہار کو غلط نہیں سمجھتیں۔
فلم رئیس کے نغمے 'لیلیٰ او لیلیٰ' کی نوجوان گلوکارہ پونی پانڈے بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔
'پہلے بھی آئٹم نمبر، جیسے پیا تو اب تو آجا، ہوتے رہے ہیں۔ وہ فلم کی کہانی کا حصہ ہوتے ہیں۔ سنی نے اس گانے کو بہت اچھی طرح سے پورٹرے کیا ہے۔ اس میں وہ کہیں سے بھی فحش نہیں لگ رہی ہیں۔'
لیکن خواتین کے مسائل پر لکھنے والی معروف مصنفہ میتری پشپا کو 'لیلیٰ او لیلیٰ' پر تھوڑا اعتراض ہے۔ انھیں اس طرح کے آئٹم نمبر میں جس طرح سے جسم کی نمائش کی جاتی ہے وہ پسند نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'ایسے گانوں پر نوجوان نسل بہت مشتعل ہو جاتی ہے۔ وہ عقل کھو بیٹھتی ہے۔ جس طرح کا ماحول ہے اس کے بارے میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر لڑکیوں کے ساتھ ریپ یا چھیڑ چھاڑ کے واقعات اتنے کیوں بڑھ گئے ہیں۔'