System education like society was also classical, speakers
Posted By: Wali on 24-12-2017 | 04:03:27Category: Political Videos, Newsکراچی: آرٹس کونسل کراچی میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز مقررین نے کہا کہ ملک میں ہنر مند تعلیمی اداروں کے قیام کی ضرورت ہے کلرک بنانے کے بجائے نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دی جائے تاکہ بے روزگاری کم ہو اس وقت ہر شعبے میں ناکام نوجوانوں کو استاد مقرر کردیا جاتا ہے یہ نقصان تعلیم کا ہے اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ 20 سال بعد ملک میں تعلیمی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔
آرٹس کونسل کراچی میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز پہلے اجلاس ’’ہماری تعلیمی و تدریسی صورتحال‘‘ کے موضوع پر خطاب میں ماہرین تعلیم نے کہا ہے کہ ملک کے طبقاتی معاشرے نے نظام تعلیم کو طبقاتی بنالیا جس سے غریب کے بچے کے لیے حصول تعلیم کی سہولتیں محدود ہوگئی ہیں جب تک طبقاتی معاشرہ ختم نہیں ہو تا طبقاتی نظام تعلیم بھی باقی رہے گا افسوس ناک خبر یہ ہے کہ خواندگی کی شرح اس سال 2 فیصد کم ہوئی ہے تعلیمی فیصد میں اضافے کے لیے نصاب تعلیم کو اردو زبان میں ڈالنا ہے مگر اس کے لیے صورتحال درست نہیں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر مل کر اس کو بہتر بناسکتے ہیں غریب بچوں کو مقابلے میں آنے کے لیے روکا جا رہا ہے اگر غریب کے بچوں کی سمجھ بھی علم آنے لگا تو وہ کہاں پہنچیں گے سب کو اندازہ ہے اجلاس کی صدارت ممتاز ماہر تعلیم اور اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے کی ماہرین تعلیم ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، انوار احمد زئی،جعفر احمد، پروفیسر ہارون رشید اور پروفیسر اعجاز فاروقی نے اظہارِ خیال کیا۔
حاضرین نے پینل سے تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے سوالات کے علاوہ تجاویز بھی دیں مقررین نے کہا کہ ملک میں ہنر مند تعلیمی اداروں کے قیام کی ضرورت ہے کلرک بنانے کے بجائے نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دی جائے تاکہ بے روزگاری کم ہو اس وقت ہر شعبے میں ناکام نوجوانوں کو استاد مقرر کردیا جاتا ہے یہ نقصان تعلیم کا ہے اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ 20 سال بعد ملک میں تعلیمی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا لہٰذا تعلیم کے شعبے کو پیشہ ورانہ طریقے سے چلانا چاہیے آرٹس کونسل آئندہ سال 4 روزہ عالمی تعلیمی کانفرنس منعقد کرے نصاب میں بچیوں کو یہ تعلیم بھی دینی چاہیے کہ ایک کامیاب ماں کیسے بنا جائے۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے کہاکہ ذہین طلبہ وطالبات ہمارا سرمایہ ہمیں ان کی ہمت افزائی کرنی ہے اور انھیں بتانا ہے کہ ان کے لیے آگے راستے موجود ہیں ملک میں اب بھی کئی لوگ اور ادارے موجود ہیں جو تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اس پر خرچ کرنا چاہتے ہیں اور خرچ کررہے ہیں پرائمری تعلیم کو خواتین کے حوالے کرکے اس کی نگرانی کے لیے ماہرین تعلیم پر مشتمل ضلعی تعلیمی بورڈ قائم کیے جائیں جبکہ کالج کی تعلیم کی نگرانی صوبے اور یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم وفاق کے ماتحت ہو تو بہتری کی توقع ہے ہمارے ہاں تعلیمی بورڈ کا نظام ناقص ہے بچوں کو رٹا لگاکر امتحان پاس کرانے کی تیاری کرائی جاتی ہے ہمیں اپنے بورڈ کو آغا خان بورڈ کی طرز پر لایا جانا چاہیے سرکاری اساتذہ کو حاضری کا پابند کیا جائے اور سرکاری تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ دی جائے اس حوالے سے خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں بہت کام ہورہا ہے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقوام عالم میں ہماری پہچان ہو تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنائیں، اپنے تشخص کے لیے ہمیں ہر صورت تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہوگا اس کام میں ایک بڑا حصہ حکومت کا بھی ہے مگر حکومت کی تعلیمی شعبے میں وہ دلچسپی نہیں ہے جو ہونی چاہیے حکومتی ترجیحات میں تعلیم پانچویں نمبر پر ہے یہ ضروری ہے کہ شعبہ تعلیم میں وہی اساتذہ آگے آئیں جو مستقل بنیاد پر دل کی گہرائی سے اس شعبے سے دلچسپی رکھتے ہوں اور مستقبل میں بھی اسی شعبے سے وابستہ رہنا چاہتے ہوں یقینا ایسے لوگوں کی آمد سے تعلیم کے معیار میں بہتری آئے گی تعلیم کے معاملے میں ہم نے ایک بند نظام بنایا ہے جو طالبعلم کامرس میں انٹر کرلے اس پر آرٹس یا لٹریچر کی کلاسز یا شعبوں میں پڑھنا حرام کردیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ہمیں تعلیم کے شعبے میں بھی کھلا نظام لانا ہوگا۔
انوار احمد زئی نے کہاکہ جب تک سفارشی کلچر کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا تعلیم کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ قیادت ضروری ہے اور لیڈر شپ کردار سے آتی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں وہ لوگ آئیں جو خوشامد پسند نہ ہوں بلکہ بچوں کو وہ تعلیم دیں جس کی انھیں صحیح معنوں میں ضرورت ہے، جعفر احمد نے کہاکہ 1947 سے آج تک پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں وسعت آئی ہے نہ صرف تعلیمی ادارے بڑھے ہیں بلکہ مضامین میں بھی اضافہ ہوچکا ہے اور اب نصاب میں مختلف مضامین شامل کرلیے گئے ہیں ریاست کی ترجیحات میں تعلیم نچلی سطح پر ہے اب تک 9 تعلیمی پالیسیاں بن چکی ہیں مگر کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی 70 سال میں خواندگی کی شرح مشکل سے 58 فیصد پر آئی ہے اور یہ نتیجہ بھی حکومتی سروے کا ہے جبکہ نجی ادارے اس سے متفق نہیں ہیں۔
پروفیسر ہارون رشید نے کہاکہ پاکستان میں اس وقت صرف 4 کروڑ بچے پڑھ رہے ہیں 2 کروڑ نے اسکول دیکھا ہی نہیں جبکہ ڈھائی سے 3 لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں انھوں نے کہاکہ مدارس کی تعداد 32 ہزار 272 ہے جن میں 22 لاکھ طلبہ پڑھ رہے ہیں جبکہ 42 پرائیویٹ یونیورسٹیاں سندھ میں ہیں اور کس طرح ڈگریاں دی جارہی ہیں وہ سب کے سامنے ہے ہم نے خود اپنے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ہے ہم گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ اساتذہ کا شکار ہیں تعلیمی شرح میں ایتھوپیا کے بعد ہما تیسرا نمبر ہے۔
پروفیسر اعجاز فاروقی نے کہاکہ ہم سب کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ تعلیمی دریا جس رخ پر بہہ رہا ہے اسے بہنے دیا جائے یا اس پر بند باندھا جائے ہمیں غریب کے بچوں کو تعلیم کے طرف لانا ہوگا اور اس حوالے سے وہ افراد اور ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو تھوڑی بہت بھی شعبہ تعلیم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔