Birth of Qayyazim; Karachi or Jhirk?
Posted By: Akram on 24-12-2017 | 03:20:46Category: Political Videos, Newsبانئی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح 25؍ دسمبر1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے یا ’’جھرک‘‘ میں یہ ایسا سوال ہے جس پر ایک عرصے سے گفتگو کی جارہی ہے مگر کوئی واضح ثبوت موجود نہ ہونے کی بنا پر قائداعظم کی حیات و خدمات پر تحقیق کرنے والے اسکا لرز نے ’’جھرک‘‘ میں پیدائش کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کراچی کو ہی قائداعظم کی جائے پیدائش قرار دیا ہے، کیوںکہ اِس حوالے سے نہ صرف دستاویزی ثبوت موجود ہیں بلکہ خود قائداعظم نے بھی کراچی ہی کو اپنی جائے پیدائش قرار دیا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق یہ اختلاف اُس وقت سامنے آیا جب ڈائریکٹرآف ایجوکیشن، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد ریجن ، ویسٹ پاکستان، کراچی سے 1960 میں طبع ہونے والی کتاب ’’Sindhi Satun Kitab‘‘ میں یہ بات درج کی تھی کہ محمد علی جناح جھرک میں پیدا ہوئے تھے جو حیدرآباد سندھ سے 114کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح پر1984 میں قائداعظم یونیورسٹی سے اپنے تحقیقی مقالے پر پی۔ ایچ۔ڈی کی سند حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی اسکالرز ڈاکٹر ریاض احمد نے بھی اپنے مقالے میں قائداعظم کی جائے پیدائش ’’کراچی‘‘ کو ہی ظاہر کیا ہے۔
ڈاکٹر ریاض احمد کا یہ مقالہ بعدازاں کتابی صورت میں Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah: The formatiive years 1892-1920 کے عنوان سے1986میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ ہسٹاریکل اینڈکلچرل ریسرچ، اسلام آباد سے شائع ہوا تھا۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر ریاض احمد سے ایک ملاقات میں جب اِس سلسلے میں تفصیلات دریافت کیں تو انہوں نے بتایا کہ جون 1982 میں وہ بذات خود جھرک گئے تھے اور وہاں کے رہائشی متعدد افراد سے اِس ضمن میں سوالات کیے تھے، مگر کسی کے پاس نہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود تھا اور نہ ہی کوئی واضح دلیل۔ چناںچہ میں اِس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ بات محض قیاس ہے اِس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ راقم الحرف نے بھی پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریل ’’جناح سے قائد‘‘ کے تحقیقی اسکرپٹ کے حوالے سے جون 1986 میں جھرک کا دورہ کیا تھا اور وہاں آباد معمر افراد سے گفتگو کی تھی مگر کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے البتہ کچھ افراد زبانی کلامی اِس بات پر مصر تھے کہ قائداعظم اِس گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ افراد کوئی ایسے امکان یا جگہ کی بھی نشاندہی نہ کرسکے جہاں قائداعظم کے والدین کی رہائش تھی۔ راقم الحروف نے اِس حوالے سے پیرعلی محمدراشدی، جی الانہ، مطلوب الحسن سید، سید ہاشم رضا، سید شریف الدین پیرزادہ، پروفیسر شریف المجاہد، رضوان احمد، اور فضل حق قریشی سے بھی مختلف اوقات مین ملاقاتیں کیں اور مسئلہ زیرِبحث پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
یہ تمام افراد قائداعظم سے قربت، رفاقت اور تحقیق کے حوالے سے نہ صرف بڑی اہمیت رکھتے تھے بلکہ ان کا قائداعظم کی حیات و خدمات کے حوالے سے تحقیقی اور تصنیفی کام آج بھی بہت اہم ہے۔ اِن تمام افراد کا بھی موقف یہ ہی تھا کہ قائداعظم کراچی میں پیدا ہوئے تھے جھرک میں نہیں۔ حیرت ہے کہ جو حلقہ قائداعظم کی جھرک میں پیدائش پر مصر رہا ہے اُس کی جانب سے اب تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی، جس کو بلاعذر تسلیم کرلیا جائے۔ اِس لیے یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی رہی ہے کہ قائداعظم کراچی ہی میں پیدا ہوئے تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظم کی زندگی میں جو کتابیں شائع ہوئیں اُن میں بھی ہمیشہ قائداعظم کی جائے پیدائش کراچی کو ہی ظاہر کیا گیا۔ اِس سلسلہ میں سروجنی نائیڈو کی کتاب Mohammed Ali Jinnah: An Ambassador of Unity 1918 میں مدراس سے شائع ہوئی۔ انگریزی میں یہ قائداعظم کے حوالے سے پہلی کتاب تھی اِس میں بھی سروجنی نائیڈو نے قائداعظم کی جائے پیدائش کراچی درج کی ہے ۔ قائداعظم کی حیات و خدمات پر پہلا تفصیلی مضمون The Indian review کلکتہ کے جنوری 1926 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔
اِس مضمون میں بھی قائداعظم کی تاریخِ پیدائش 25؍ دسمبر 1876 اور جائے پیدائش کراچی درج کی گئی ہے۔ روزنامہ دکن ٹائمز کے ایڈیٹر اے ۔اے۔ رؤف نے 1977 میں قائداعظم کی ایک سوانح عمری Meet Mr. Jinnah کے عنوان سے تحریر کی انہوں نے بھی کراچی ہی کو قائداعظم کی جائے پیدائش قرار دیا۔ اِس کتاب مین اے۔اے۔ رؤف نے قائداعظم کی دوسری شادی پر جہیز کے حوالے سے کچھ تفصیلات بے بنیاد درج کردی تھیں۔
جب یہ تفصیلات قائداعظم کے علم میں آئیں تو انہوں نے 9؍ جون 1944 کو مصنف کے نام ایک خط میں اِس غلط بیانی کی نشاندہی کی جس کے جواب میں مصنف نے 2 ؍ ستمبر1944 کو قائداعظم کے نام ایک خط میں معذرت کی اور لکھا کہ میں دوسرے ایڈیشن میں اس غلط بیان کو نکال دوں گا۔ اِس خط کے جواب میں 5 ؍ ستمبر 1944 کو قائداعظم نے اے۔اے۔رؤف کو ایک خط میں لکھا کہ ’’یہ ایک مصنف کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی زندگی سے متعلق حقائق کو اُس وقت تک مشتہر نہ کر ے جب تک اُس کی تصدیق نہ کرلے ۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ افواہوں پر مبنی اطلاعات کو تحقیق کرکے کتاب میں سے حذف کریں۔‘‘
اے۔اے۔ رؤف سے قائداعظم کی خط و کتابت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر قائداعظم کی جائے پیدائش کراچی نہ ہوتی تو وہ اُس پر بھی اعتراض کرتے۔ 25؍ اپریل 1946 کو ہفت روزہ، انجام دہلی کے ایک منجم نے ایک خط میں قائداعظم سے اُن کی صحیح تاریخ پیدائش، وقت اور مقام دریافت کیا۔ اِس خط کے جواب میں 30 ؍ اپریل 1946کو قائد اعظم نے منجم کو مطلع کیا کہ علی الصبح 25 ؍ دسمبر 1876 ، مقام کراچی‘‘۔ اے۔ اے۔ رؤف کی کتاب Meet Mr. Jinnah کی اشاعت کے فوراً بعد قائداعظم کے پرائیویٹ سکریٹری مطلوب الحسن سید نے قائداعظم کی ہی خواہش پر ایک سوانح عمری لکھنے کا بیڑا اٹھایا، تاکہ وہ قائداعظم کی نگرانی میں ایک ایسی کتاب لکھیں جو اغلاط سے بھی پاک ہو اور جس میں قائداعظم کے کاغذات سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا ہو۔ اِس کتاب میں بھی جو 1945ء میں لاہور سے شائع ہوئی تھی کراچی کو قائداعظم کی جائے پیدائش ظاہر کیا گیا ہے۔
بعد کی دیگر تحقیقات میں بھی اِس کتاب کے کثرت سے حوالے دیے گئے ہیں۔ معروف صحافی زیڈ۔اے ۔ سلیری نے بھی1945 میں قائداعظم کی سوانح میں ایک کتاب ’’My Leader‘‘ لکھی تھی جس میں انہوں نے بھی کراچی کو قائداعظم کی جائے پیدائش قرار دیا تھا۔ اِس کتاب کے قائداعظم کی زندگی ہی میں یعنی اپریل 1945 سے اگست 1946 تک تین ایڈیشن شائع ہوئے۔ پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے فوراً بعد قائداعظم نے 16؍ مئی 1945 کو زیڈ۔ اے۔ سلیری کی کتاب ’’My Leader‘‘ ملنے کے بعد ایک خط میں کتاب کے مندرجات کی تعریف کی اور اُن کو مشورہ دیا کہ وہ کتاب کی پورے ملک میں تقسیم و فروخت پر توجہ دیں۔
تحریکِ پاکستان کے دوران اور قائداعظم کی زندگی میں یعنی 1939 سے 1947 تک اردو زبان میں بھی تقریباً 12 کتابیں شائع ہوئیں اور اِن تمام کتابوں میں قائداعظم کی جائے پیدائش کراچی کو ہی ظاہر کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اِس موضوع پر بہت کتابیں شائع ہوئیں خصوصاً 1948 سے 1967 تک اردو میں تقریباً 30 اور انگریزی میں 34 کتابیں شائع ہوئیں ۔ اِس عرصہ میں محترمہ فاطمہ جناح بقید حیات تھیں اور ہر مصنف اپنی کتاب اُن کو ضرور ارسال کرتا تھا۔
اِن تمام کتابوں میں بھی قائداعظم کی جائے پیدائش کراچی کو ہی ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر کبھی اِس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح معترض نہیں ہوئیں بلکہ خود انہوں نے قائداعظم کی ایک سوانح عمری ’’My Brother‘‘ کے عنوان سے لکھنے کا فیصلہ کیا تو اُس میں بھی انہوں نے قائداعظم کی جائے پیدائش کھارادر کراچی ہی ظاہر کی ہے۔ یہ کتاب جس کے تین ابواب محترمہ فاطمہ جناح لکھ پائی تھیں مسودہ کی صورت میں اُن کے کاغذات سے دستیاب ہوئی تھی۔ بعد میں پروفیسر شریف المجاہد نے اِس کو قائداعظم اکادمی سے کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔
قائداعظم نے اگرچہ اپنی زندگی میں بار بار کراچی کو اپنی جائے پیدائش ظاہر کیا مگر کبھی انہوں نے اُس عمارت کی نشاندہی نہیں کی جس میں وہ پیدا ہوئے تھے لہذا قائداعظم کی رحلت کے فوراً بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ کھارادر میں وہ عمارت کہاں واقع ہے، جس میں قائداعظم کی ولادت ہوئی تھی۔ اس ضمن میں پاکستان کی پہلی وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کرنل مجید ملک نے وزارت کے تحت نکلنے والے ماہنامہ ’’ماہ نو‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل صحافی فضلِ حق قریشی کے ذمّہ یہ کام سپرد کیا کہ وہ قائداعظم کے اُن رشتہ داروں کو تلاش کریں جو شروع سے اب تک کراچی میں مقیم ہیں۔
دراصل بات یہ تھی کہ ’’ماہِ نو‘‘ کا اکتوبر 1948 کا شمارہ ’’قائداعظم نمبر‘‘ کے طور پر شائع کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جس میں قائداعظم کی حیات و خدمات سے متعلق مضامین اور اُن کے خاندانی حالات شامل کرنا تھے۔ فضلِ حق قریشی نے یہ ذمہ داری نہ صرف قبول کرلی بلکہ وہ قائداعظم کے رشتہ داروں کی تلاش میں سرگرم ہوگئے اور بالا آخر اُن کو اپنی کوشش سے کام یابی حاصل ہوئی اور انہوں نے اپنی حاصل کردہ معلومات پر مبنی ایک مضمون ’’قائداعظم کا گھرانا‘‘ لکھا جو ’’ماہِ نو‘‘ کے مذکورہ نمبر میں اشاعت پذیر ہوا۔ تقریباً 28سال کے بعد جب قوم قائداعظم کا صد سالہ جشنِ ولات منارہی تھی تو اُس موقع پر فضلِ حق قریشی نے اپنے اسی مضمون کچھ اضافہ اور حاشیے لگا کر گورنمنٹ ایم۔اے۔اؤ کالج لاہور کے میگزین ’’اقرا‘‘ کے ’’قائداعظم نمبر‘‘ کو ارسال کیا جو جون 1976 میں شائع ہوا۔
راقم الحروف جب 1975میں قائداعظم کے حوالے سے ایک کتاب ’’قائداعظم کے 27 سال‘‘ کی تالیف میں مصروف تھا اُس وقت راقم الحروف نے فضلِ حق قریشی صاحب سے ناظم آباد کے علاقہ میں واقع ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن میں ملاقات کی تھی جہاں وہ تصنیف و تالیف کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر چھیاسٹھ برس کے قریت تھی مگر چاق و چوبند تھے اور حافظہ بھی باکمال تھا۔ قائداعظم کے بارے میں وہ اُس وقت انگریزی میں اپنی کتاب Every Day with Quaid-i-Azam کی تدوین میں مصروف تھے لہذا وہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ قائداعظم کے حوالے سے ہی گفتگو کرتے رہے۔
اِس دوران انہوں نے اپنے مضمون ’’قائداعظم کا گھرانا‘‘ کے حوالے سے اپنی ایسی یادداشتوں کا تذکرہ کیا جو مذکورہ مضمون میں درج نہیں کی جاسکی تھیں۔ ناظم آباد نمبر 3 میں ہی اُن کی رہائش تھی، چناںچہ بعد میں یعنی اُن کے انتقال 15؍ اکتوبر 1999 تک مجھے متعدد بار اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ خصوصاً پاکستان ٹیلی ویژن کے سیریل ’’جناح سے قائد‘‘ کی عکس بندی کے دوران 1996 میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد ہم نے جب کراچی میں مقیم قائداعظم کے رشتہ داروں کی تلاش شروع کی تو ایک خاتون فاطمہ بائی تک رسائی حاصل ہوگئی جو کھارادر میں واقع ایک عمارت کھلنا نی بلڈنگ میں اپنے تین بیٹوں اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ فاطمہ بائی قائداعظم کے چچاوال جی پونجا کے بیٹے کانگ جی وال جی کی اہلیہ تھیں اور رشتہ میں قائداعظم کی بھاوج لگتی تھیں۔ فاطمہ بائی کی وال جی سے شادی 1885 میں ہوئی تھی اور وہ رخصت ہوکر اُس گھر میں آئی تھیں جس میں قائداعظم کے والد جناح پونجا کی رہائش تھی۔
اِس اعتبار سے انہوں نے محمدعلی جناح کو پہلی مرتبہ جب دیکھا تھا تو اُن کی عمر آٹھ سال کی تھی۔ انہی فاطمہ بائی نے نیو نہم روڈ کھارادر میں واقع اُس عمارت کی نشاندہی کی جس میں قائداعظم پیدا ہوئے تھے اور جو بعد میں ’’وزیر مینشن‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ بقول فضلِ حق قریشی یہ عمارت تھوڑے سے تغیّر و تبدل کے ساتھ پرانی بنیادوں پر قائم تھی اور اس کی بالائی منزل میں قائداعظم کی ولادت ہوئی تھی۔ اکتوبر1947 تک اِس عمارت کے مالک کراچی کے قدیم باشندے اور کپڑے کے تاجر گوردھن داس نوتن داس تھے جن سے یہ عمارت بمبئی پونا کے ایک اور تاجر وزیرعلی نے جو رنگ و روغن کی تجارت کرتے تھے 25 ہزار روپے میں خرید کر اِس کا نام وزیر مینشن رکھا تھا۔ 1948 میں اِس عمارت کی نچلی منزل میں کپڑے کے آڑھتیوں کی دکانیں تھیں اور بالائی منزلوں میں وزیرعلی کے اہلِ خانہ اور رشتہ دار رہتے تھے۔ 1953 میں اِس عمارت کو قائداعظم کی جائے ولادت ہونے کی بنا پر قومی ملکیت میں لے لیا گیا اور یہاں ایک عوامی دارالمطالعہ اور میوزیم قائم کردیا گیا۔ میوزیم میں قائداعظم سے متعلق یادگار اشیا اور نوادرات کو سجایا اور آویزاں کیا گیا ہے۔
فضلِ حق قریشی نے راقم الحروف کو یہ بھی بتایا کہ جب وزیر مینشن نامی عمارت کا سراغ مل گیا تو پرنسپل انفارمیشن آفیسر کرنل مجید ملک نے انفارمیشن کے ہی ایک فوٹوگرافر میاں ظہور کو جو قیام ِ پاکستان کے وقت دہلی سے opt کرکے پاکستان آئے تھے حکم دیا کہ وہ اِس عمارت کی تصویر کھینچ کر دیں تاکہ اُسے ماہِ نو کے قائداعظم نمبر میں شائع کیا جاسکے چنانچہ میں نے ایک مرتبہ پھر فاطمہ بائی سے رابطہ کیا اور اُن کے بڑے صاحبزادے محمدعلی کو جو اُس وقت ساٹھ سال کے تھے اور تقریباً قائداعظم سے مشابہہ تھے، اِس عمارت کے سامنے قائداعظم کی شیروانی ، شلوار، ٹوپی اور جوتے پہناکر کھڑا کیا تاکہ تصویر میں حقیقت کا رنگ بھرا جاسکے۔ یہ تصویر جب ماہِ نو کے قائداعظم نمبر میں شائع ہوئی تو بیشتر افراد کو گمان گزرا کہ شاید قائداعظم عمارت کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کے راقم الحروف کے والد ہجرت کرکے فروری 1948 میں جب کراچی آئے تو انہوں نے کھارادر ہی میں واقع ایک عمارت منگامل مولچندبلڈنگ میں قیام کیا تھا۔ جو نہ صرف کھلنانی بلڈنگ بلکہ وزیرمینشن سے بھی قریب تھی۔ اِس عمارت میں میرے والد کی رہائش 1958 تک رہی بعد میں ناظم آباد منتقل ہوگئے، لہٰذا میں نے اپنے بچپن میں محمدعلی اور اُن کے بھائی حیدرعلی کو متعدد بار دیکھا جو واقعی قائداعظم سے مشابہہ تھے۔ اُس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی تھی۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کھارادر کراچی میں واقع مذکورہ عمارت میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ گذشتہ 96 سال کے دوران اِس حوالے سے کوئی بھی ایسی مستند تحقیق منظرِ عام پر نہیں آئی جس میں ’’جھرک‘‘ کو قائداعظم کی جائے پیدائش ظاہر کیا گیا ہو۔ خود قائداعظم نے متعدد مواقع پر کراچی کو اپنی جائے پیدائش قرار دیا بلکہ انہوں نے 1931 اور 1946 میں بننے والے اپنے پاسپورٹ میں بھی کراچی کو ہی جائے پیدائش لکھا ہے ایسی صورت میں کسی غیرمصدقہ اطلاع کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ قائداعظم کے رفقاء بھی اِس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ قائداعظم کراچی ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد گورنر کے سکریٹری ، کلکٹر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی حیثیت سے مئی 1948 تک اور بعد ازاں کراچی کو وفاقی دارالحکومت قرار دینے کے بعد سید ہاشم رضا اِس شہر کے پہلے ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے گئے۔ انہوں نے بھی اپنی یادداشتوں بعنوان ’’ہماری منزل‘‘ میں کراچی کو ہی نہ صرف قائداعظم کی جائے پیدائش قرار دیا ہے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد قائداعظم کی سرکاری سوانح عمری Jinnah: Creator of Pakistan نیوزی لینڈ کے سوانح نگار مورخ اور ناول نگار ھیکٹر بولائتھو سے لکھوائی گئی تھی جس کا پہلا ایڈیشن 1954 میں لندن سے شائع ہوا تھا۔ اِس میں بھی ھیکٹر بولائتھونے محمدعلی جناح کی رشتہ کی بھاوج فاطمہ بائی سے ملاقات ظاہر کی ہے جو کھارادر کی ایک عمارت میں رہائش پزیر تھیں اور اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 86 سال تھی فاطمہ بائی کے صاحبزادے محمدعلی کانجی بھی اِس ملاقات میں موجود تھے اور انہوں نے بھی قائداعظم کا خاندانی احوال دستاویزات کی مدد سے ھیکٹر بولائتھو کا بتایا تھا۔ فاطمہ بائی کا کہنا تھا کہ محمدعلی جناح نیو نہم روڈ پر واقع اُس عمارت میں پیدا ہوئے تھے جو اب ’’وزیرمینشن ‘‘ کہلاتی ہے۔
ھیکٹر بولائتھو کی کتاب کے بعد محمد علی جناح کی سوانح میں متعدد کتب شائع ہوئیں جن میں جی الانہ کی کتاب QAJ: A Story of a Nation، ایم ۔ایچ اصفہانی کی کتاب Jinnah: As I Knew ، himسید شمس الحسن کی کتاب Plain Mr. Jinnah، عزیز بیگ کی کتاب QAJ: His life & Times، اسٹینلے والپرٹ کی کتاب Jinnah of Pakistanقابل ذکر ہیں۔ ان تمام کتابوں کے مصنفین کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کراچی کے ایک محلے کھارادر کی ایک سڑک نیو نہم روڈ پر واقع ایک عمارت میں پیدا ہوئے تھے اور اب یہ عمارت ’’وزیر مینشن ‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ میرے خیال میں اتنی واضح شہادتوں کے بعد یہ بحث کہ قائد اعظم محمد علی جناح کراچی میں پیدا ہوئے تھے یا جھرک میں ختم ہوجانا چاہیے۔